پی نہ ملن کو آئے سانول
من پنچھی کرلائے سانول
دل محتاط طبیعت والا
بن پریتم پچھتاوے سانول
تیری آس پہ بیٹھے بیٹھے
برکھا بیت نہ جائے سانول
اندر بیٹھا ڈیرے ڈالے
گھڑی گھڑی بہکائے سانول
آگ لگا جائے اشکوں میں
پلکوں کو سلگائے سانول
بھیڑ سے سہا ہوا ہوں شاید
تنہائی بہلائے سانول
کون دلاسہ دے زخموں کو
کون انھیں سمجھائے سانول
غم آ جاتے ہیں رستے میں
دامن کو پھیلائے سانول
ہنستا رہنے والا فرحت
چھپ چھپ نیر بہائے سانول
***