سرِ شاخِ گُل
(نذرِ احمد ندیم قاسمی)
وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی
لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
مرے وجود،مری شخصیت پہ چھائی ہے!
وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِ دیرینہ کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو
مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں !
اُداسیوں کی کسی جاں گداز ساعت میں
میں اُس کی شاخ پہ سر رکھ کے جب بھی روئی ہوں
تو میری پلکوں نے محسوس کر لیا فوراً
بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس!
(نمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں !)
کڑی دھوپ ہے
تو پھر برگ برگ ہے شبنم
تپاں ہوں لہجے
تو پھر پھُول پھُول ہے ریشم
ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رَس مرہم!
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے
کرن کرن مری سوچوں میں جگمگاتی ہے
(مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند مرا یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر!)
وہ ایک جھونکا
جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا
اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں
میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے
بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بند کیے
جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جا رہی ہوں میں !
وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے
وہ رات میں ،مرے آنگن پہ ٹھہرنے والا
شفیق ،نرم زباں ،مہرباں بادل ہے
مرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی
جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں
دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں
ہزار چاند ،سرِ شاخ گُل اُبھرتے ہیں