آفتاب
(ترجمہ گایتری )

اے آفتاب! روØ+ Ùˆ روان جہاں ہے تو
شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے
تیرا یہ سوز Ùˆ ساز سراپا Ø+یات ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے ØŒ خرد ہے ØŒ روØ+ رواں ہے ØŒ شعور ہے
اے آفتاب ، ہم کو ضیائے شعور دے
چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے
ہے Ù…Ø+فل وجود کا ساماں طراز تو
یزدان ساکنان نشیب و فراز تو
تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں
تیری نمود سلسلۂ کوہسار میں
ہر چیز Ú©ÛŒ Ø+یات کا پروردگار تو
زائیدگان نور کا ہے تاجدار تو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزاد قید اول و آخر ضیا تری