جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں
بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں

ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں

میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں

ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں

یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں

لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں

سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں

اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں

ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں

ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں

وہ جو ہے جو *کہیں* نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں

اپنی بے روزگاریِ جاوید
اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں

شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں

کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں

بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں