ربِّ کائنات

وہ ابتدا، وہ انتہا
وہی عیاں، وہی نہاں
وہ قادر و حکیم ہے
رحیم ہے، کریم ہے
سمیع اور بصیر ہے
علیم ہے، خبیر ہے
وہ نورِ ارض و آسماں، وہ ربِّ کائنات ہے
عیوب سے منزّہ اور مصفّا اس کی ذات ہے
مقیم ہے وہ عرش پر، بجا یہ بات ہے ، مگر
رگِ گلو سے ہر بشر کی وہ بہت قریب ہے
ہمارے دل کے سارے راز تک سے ہے وہ باخبر
اسی نے پیدا کیں زمین و آسماں کی نعمتیں
ہے اس کے دسترس میں سب کی موت اور زندگی
ہر ایک بیج کو دیا اسی نے قوتِ نمو
اتارتا ہے پانی ہم پہ آسمان سے وہی
زمین و آسماں سے ہم کو رزق کرتا ہے عطا
وہی نظامِ کائنات کا ہے تنہا منتظم
زمیں، فلک، شجر، حجر، نجوم و مہر و کہکشاں
یہ ماہتابِ تیز رو، صبا، گھٹا، چمن، خزاں
یہ صبح و شام کا طلوع اپنے وقتِ خاص پر
یہ بحرِ بیکراں، یہ کوہسار و جوئے مضطرب
سب اس کے زیر حکم ہیں
وہی ہے سب کا حکمراں
تمام حمد اور ستائشوں کا مستحق ہے وہ
اسی کی بندگی کرو، اسی سے التجا کرو
اسی کے سامنے سرِ نیاز کو جھکاؤ تم
شریک مت بناؤ اس کی ذات میں کسی کو تم
یہ انبیا، یہ اولیا، یہ صوفیان با صفا
یہ دیوتا، رشی منی،
سب اس کے بندہ و غلام ہیں یہ خود خدا نہیں
مت ان کے سامنے جھکو
عظیم سے عظیم تر یہ عہد نو کے فتنہ گر
یہ حکمراں، یہ زر پرست
سب اس کے آگے ہیچ ہیں
نہ ان سے التجا کرو
اسی کی بندگی کرو جو ربِ کائنات ہے
اسی سے التجا کرو، وہی ہے سب کا بادشاہ