نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا
تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا
ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان ہوتے ہیں
سبھی تھے جان کی کی جاں اور سبھی کو چھوڑ دیا
شعور ایک شعورِ فریب ہے سو تو ہے
غرض کہ آگہی، ناآگہی کو چھوڑ دیا
خیال و خواب کی اندیشگی کے سُکھ جھیلے
خیال و خواب کی اندیشگی کو چھوڑ دیا