۔10 فوجی اصول:سول زندگی میں بھی کامیابی کی ضمانت ۔
انسان زمانہ قدیم سے ہی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور پر دوسرے انسانوں، گروہوں، قبیلوں اور قوموں سے لڑتاجھگڑتا آیا ہے۔اس لئے انسان دوسروں سے خودمختاری اور آزادی کا حق چھیننے پر بھی آمادہ نظر آیا ہے ۔ اس نے کبھی نظریات کے نام پر دوسروں سے جنگیں کی ہے تو کبھی شخصیات کے نام پر دوسروں سے لڑنا اس کا وطیرہ رہا ہے۔جنگیں ہر دور میں ہوتی رہیں اور شائد آنے والے مستقبل میں بھی ان سے بچا نہ جاسکے اور شائد انسان کی حتمی بربادی اور تباہی بھی انہی جنگوں کی وجہ سے ہی ہو گی۔لیکن ان جنگوں سے بھی بطور فرد ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں بہت بہتری اور ترقی لا سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم جنگوںکی تاریخ اور ان کے احوال سے سیکھنے میں میں سنجیدگی اوربلوغت کامظاہرہ کریں۔ ذیل میں ان دس اصولوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو فرد جنگی تاریخ اور واقعات سے سیکھ کر اپنی عملی زندگی میں اگر ان کا اطلاق کر لے تو کامیابی ان کا پتہ پوچھتے اُس سے آن ملے گی یعنی انہیں کامیابی کیلئے تگ و دو نہیں کرنا پڑے گی بلکہ یہ ایسے عمل کو جنم دیگا کہ کامیابی خود ان کے پیچھے بھاگنے لگے گی ۔ بس آپ کا کام اتنا ہے کہ ان اصولوں کو پڑھنے اور یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کو جینا شروع کر دیں باقی نتائج آپ کو حیران و پریشان کر دیں گے ۔آپ کو یقین نہیں آتا تو آزما کر دیکھ لیں۔
جنگی تاریخ سے سبق سیکھ کر عام آدمی بھی کامیابی حاصل کر سکتا ہے
دنیا میں کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں ہے کہ جس میں فاتح کو یہ یقین نہ ہو کہ وہ اس جنگ میں جیت جائے گا
کامیابی کا مکمل یقین حاصل کریں: دنیا میں کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں ہے کہ جس میں فاتح کو یہ یقین نہ ہو کہ وہ اس جنگ میں جیت جائے گا۔ ہار کو سوچنے والے حقیقی جنگی میدا نوں میں بھی ہارے اور عملی زندگی میں تو آپ کو ہر جگہ ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کی اپنے بارے میں شکست خوردہ سوچ نے ہی ان کو زندگی کی جنگ لڑنے سے پہلے ہی ہروا دیا ۔ خود پر، اپنی قابلیت پر، اپنی لیاقت پر، اپنی صلاحیت پر، اپنی ذہانت پر ، اپنے خداپر کامل یقین اور بھروسے کے بغیر کسی بھی جنگ میں کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پلوٹارک نے تاریخ میں لکھا ہے کہ ارسطو نے دنیا کے فاتح ِعظیم الیگزینڈر دی گریٹ یعنی سکندر اعظم کو نہ صرف اخلاقی، روحانی، معاشی اور معاشرتی تربیت دی بلکہ اُسے سب سے پہلے اپنے اندر فتح حاصل کرنے کا سنہرا گُر بھی سکھایا۔ روایات میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب سکندر دنیا کو فتح کرنے کے سفر پر نکلنے کی تیاری کر چکا تو اپنے اُستاد ارسطو کے پاس حاضر ہو اور پوچھنے لگا کہ کیا میںدنیا فتح کر لوں گا؟ اَرسطو متانت سے بولے نہیں ،ابھی نہیں۔جائو اور جا کر تیاری کرو۔ اگلا سال بھرپور تیاری میں گزارنے کے بعد سکند نے پھر یہی سوال دُہرایا تو جواب بھی یہی ملا کہ جائو اور جا کر مزید تیاری کرو۔ تیسرے سال سکندر گیا اور جا کر بولا استادِ محترم ! اجازت دیں !میں آپ کو دنیا فتح کر کے دکھائوں گا۔ارسطو نے ہنستے مسکراتے اجازت دے دی۔ سکندر نے حیران ہو کر دریافت کیا اب ایسا کیا ہو اہے کہ آپ نے مجھے دنیا فتح کرنے کے سفر پر روانگی کی اجازت دے دی ہے۔ ارسطو بولے پچھلے دو سال تیاری کے باوجود تمہیں اپنے آپ پر یقین نہیں تھا اور تُم سوال کرتے تھے کہ کیا میں دنیا فتح کرلوں گا مگر اس سال تمہیں یقین ہے کہ تُم دنیا جیت لو گے اور تم نے کہا کہ تُم مجھے دنیا فتح کر کے دکھائو گے، اس لئے میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ سکندر اور اس کی فوجیں دنیا بھر کو فتح کرتے ہوئے پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک آن پہنچی۔بیرونی کسی بھی جنگ میںفتح حاصل کرنے کیلئے پہلا قدم اپنے اندر میں فتح کا یقین حاصل کرنا ہے۔ پوری توجہ تیاری پر لگادیں : دنیا بھر کی فوجوں کا ایک اصول ہے کہ زمانہ امن میں ہی جنگوں کی تیاری کی جاتی ہے ۔ جنگ تو امن کے دور میں سیکھی صلاحیت سے دشمن پر فتح پانے کا وقت ہوتا ہے یعنی جنگ تو وُہ وقت ہے کہ جب کوئی بھی فوج اپنی عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔فوج کی تربیت اور تیاری جتنی کٹھن اور مشکل ہوتی ہے جنگ کے دور میں اُس فوج کی کارکردگی اتنی ہی اچھی ہوتی ہے۔ آپ کے پاس بھی جو تیاری کا وقت ہے اس کا سب سے بہترین استعمال یہ ہے کہ آپ بھی زندگی کی جنگ کی بھرپورتیاری کریں اور جس قدر ممکن ہو سکے اپنی قوت، صلاحیت اور اہلیت میں اضافہ کرتے چلے جائیں کیونکہ بالآخر ایک دن آپ کو سب کے ساتھ مقابلے کی اس دنیا میں کھڑا ہونا ہے۔ مقابلے کے دن کی کامیابی کا انحصار آپ کی اُس مشق اور کارکردگی پر ہوتا ہے جس کے لئے آپ نے ہفتوں، مہینوں اور سالوں ریاضت کی ہوتی ہے۔ اپنے وجود کو منوانے کی خاطراور کامیاب ہونے کے لئے فر د کو سالوں اور دہائیوں کی محنت کرنا پڑتی ہے تب جا کر کہیں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اس لئے اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ اپنی پوری توجہ اُس وقت تیاری میں لگا دیں جب دوسرے سب سکون سے بیٹھے ہوں ۔ آپ کی اُس دور کی محنت اکارت نہیں جائے گی۔بس لگاتار اور مسلسل محنت اور تیاری بنیادی شرط ہے جسے پوری کئے بغیر کبھی کامیابی کاتصورر بھی نہ کیجئے گا۔ نظم و ضبط کو زندگی کا شعار بنائیں:کسی بھی فوج یا فرد کو اُس وقت تک کامیابی نہیں ملتی جب تک وُہ اپنی زندگی میں نظم و ضبط کو بنیادی اہمیت نہ دے اور اس کو اپنی ذات کا حصہ نہ بنا لے۔ اپنے کاموں میں ڈسپلن کا خاص طور پر خیال رکھنا کامیاب لوگوں کی زندگی کا بنیادی وطیرہ ہوتا ہے۔دنیا کا اعلیٰ ترین منصوبہ بھی اُس وقت ناکام ہو جاتا ہے کہ جب اُسے مناسب طور پر عملی جامہ نہ پہنایا جائے اور اس کے لئے مناسب حکمت َعملی نہ بنائی جائے۔بڑے مقاصد کے حصول کیلئے لازم ہے کہ فرد کی زندگی کچھ بڑا کر دکھانے کی خواہش ہو یا کسی ٹیم کی کوئی میڈل یا ٹرافی جیتنے کی کوشش ، کسی فوج کی کوئی کارروائی ہو یا کسی کاروباری ادارے یعنی بزنس آرگنائزیشن کی کوئی خدمت یا مصنوعات دنیا کو فراہم کرنے کی سرگرمی، ان سب کے لئے مناسب منصوبہ بندی تو ضروری ہوتی ہے مگر یہ بھی لازمی ہے کہ کسی بھی دخل اندازی یا لالچ کو پسِ پشت ڈال کرافراد کی تمام صلاحیتوں کو اپنے پہلے سے طے شدہ مقصد کے حصول کے لئے وقف کردیا جائے ۔کامیابی کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان کو متعین کریں اور ان کے لئے وقت کا تعین کرلیں۔بعدازاں آپ کو مقاصد حاصل کرنے کے لئے واضح طریقہ کار اورحکمت ِعملی بھی وضع کرنا ہوگی۔جس کے بعد اصل امتحان شروع ہوتا ہے یعنی آپ کو اپنی زندگی میںنظم و ضبط لانا پڑے گا۔ یہی تو وُہ ایک مہارت ہے کہ جس کو زندگی میں لانے پر کامیابی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ یکسوئی سے ہدف پر نگاہ رکھیں : جنگ چاہے میدانِ عمل میں ہو یا پھر حقیقی جنگی میدان کی دونوں میں کامیابی کے لئے لازم ہے کہ آپ کو اپنے مقصد یا ہدف کے بارے میں مکمل آگاہی ہو اور آپ نے اس واضح ہدف کو حاصل کرنا اپنا مقصدِ حیات بنا رکھا ہو۔ اس کے دو ہی طریقے ممکن ہیں یا تو ایک ہی دفعہ پوری قوت لگا دی جائے اور حتمی جنگ کے ذریعے کامیابی حاصل کر لی جائے یا پھر دشمن کو گوریلا جنگ سے بہت تھکا تھکا کر ہرایا جائے۔ان دونوں طریقوں کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ ایک ہی دفعہ اپنی قوت کو مجتمع کر کے ایک ہی جگہ اس طرح سے لگانا کہ دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دے اس طرح مفید ہے کہ اس طریقے سے آپ اپنے مقاصد کو جلد حاصل کر لیتے ہیں مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ اس میں مقصد کے حصول کے لئے آپ کو بہت زیادہ توانائی اور اخراجات لگانا پڑتے ہیں۔ مگر آپ کا حریف اگر بہت زیادہ طاقتور ہے اور آپ اس پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اُس کے مفادات کو چھپ کر اتنی زک پہنچائیں کہ وہ ایک مرتبہ تو سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ دنیا کی بہت بڑی بڑی سپر پاورز کو بھی گوریلا طریقہ جنگ سے نہ صرف تھکا کر ہرایا جا چکا ہے بلکہ ان کی شکست و ریخت کو دنیا نے دیکھا ہے۔ اپنے ہدف یا مقصد کو حاصل کرنے کیلئے مکمل توجہ اور یکسوئی بھی لازم وملزوم ہیں۔ رازدار ی اور خاموشی سے اپنی تیاری کریں: دنیا بھر کی فوجوں کا ایک مانا اور جانا ہوا اصول یہ بھی ہے کہ آپ اپنی تیاری اورصلاحیت سے دشمن کو بے خبر رکھتے ہیں ۔ مقابلے کی دنیا میں چُپ چاپ اپنی صلاحیت بڑھانے والے لوگ اور افواج ہی حقیقی کامیابی کے مستحق ٹھہر تے ہیں۔بلنگ و بانگ دعوئوں اور ڈینگیں مارنے سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ خاموش محنت کا شور دنیا خود بخود آپ کی بڑی کامیابی کی صورت میں خود ہی سُن لے گی۔ وُہ کہتے ہیں نا سورج چڑھتا ہے تو سب دیکھتے ہیں اُسے کسی کو بتانے یا جتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کی کامیابی کا سورج چڑھے کا تو سب کوپتہ چل جائے گا۔ اس لئے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول میں خاموشی سے جدو جہد کرتے رہیں ۔پھر ایک دن وُہ بھی طلوع ہو گا کہ سب آپ کے معترف ہو جائیں گے کہ آپ نے زندگی کی جنگ میں کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہے۔ خاموش محنت اور تیاری کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ خدانخواستہ کامیاب نہ بھی ہو سکیں تو آپ کو دوسروں کے سامنے شرمندگی اُٹھانا نہیں پڑتی جو اکثر بڑے بول بولنے والے اُٹھاتے ہیں۔ حالات کے مطابق خود کو ڈھالیں: زندگی اور جنگ کی کوئی کتنی بھی تیاری کرلو یہ آپ کو اپنی نئی نئی مشکلات اور چیلنجز ضرور پیش کرتی ہیںتا کہ آپ جانچا جا سکے کہ آپ اِن سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں اور انکا حل کیسے نکالتے ہیں؟ زندگی کا پرچہ ہو یا جنگ کا میدان ہر جگہ نئی مشکلیں اورنئے سوال آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ وہاں فوری فیصلے کرنے کی اور مسائل کوحل کرنے صلاحیت اورمہارت کو جانچا جاتا ہے۔ جس کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو اُس نئے ماحول میں نہ صرف ڈھال لیں بلکہ اس سے مطابقت پیدا کرکے اعلیٰ ترین نتائج بھی دے سکیں۔ اسی کا نام تو ذہانت اور قابلیت ہے ۔ نئے ماحول میں ڈھل جانے اور کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت کا انحصار آپ کی شخصیت کی پختگی اور لچکدار ہونے پر ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو کسی ایک ماحول کا عادی مت بنائیں۔اپنی حکمتِ عملیوں اورمنصوبہ میں لچکدار رہیں۔ ہر جگہ اور ماحول میں ڈھل جانے کی کوشش کیا کریں تاکہ ہنگامی حالات کی صورت میں آپ کو کوئی مشکل مشکل نہ لگے۔ حملہ اور دفاع دونوں کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں : ہر وقت مستعد اور چوکس رہنا ہی آپ کو کسی ہنگامی صورتحال میں ناکامی اور خفت اُٹھانے سے بچائے رکھتا ہے ۔جوقومیں اور افراد جب تک اپنے آپ کو ہر وقت کامیابیوں کے لئے تیار رکھتے ہیں ان کاجیت کی طرف راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔کبھی بھی اپنے دشمن یا مدِ مقابل کو کبھی بھی ہلکا مت سمجھیں۔ جب آپ اپنی آپ کو ہمہ وقت تیار رکھتے ہیں تو حالات کے مطابق آپ فوری فیصلے کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یعنی آپ بہ آسانی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو آگے بڑھ کر مدِ مقابل پر حملہ کرنا یا اُس کے حملے کو روک کر اپنے دفاع کو یقینی بناناہے ،دونوں صورتوں میں اپنا تجزیہ کرنے اور صلاحیتوں کو جانچنے سے ہی کامیاب ہوا جا سکتاہے۔ اس لئے آپ اپنی تیاری کو ہر وقت مکمل رکھتے رہیں ۔دشمن یا مدِمقابل سے پہلے آپ کو اپنے آپ پر فتح پانی ہوتی ہے کہ آپ سستی اور تغافل کو ہرائیں اور جیت کیلئے نہ صرف پُر عزم ہوں بلکہ ہر وقت تیار اور چوکس ہوں۔ اپنی حفاظت کو پہلے یقینی بنائیں: دنیا بھر میں فوجوں کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی جنگی صورتحال میں اپنی حفاظت کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی خطرے میں کودنے سے پہلے اس بات کا مکمل اور جامع تجزیہ کیا جاتا ہے کہ ساری جنگی بھاگ دوڑ اور مشقت سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ اس بات پر دی جاتی ہے کہ آپ کا نقصان کم سے کم ہو یعنی اپنی حفاظت کو پہلی ترجیح دی جاتی ہے۔ فرد کو بھی اپنی زندگی میں کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یا کسی بھی ہدف یا مقصد کے حصول میں اپنی توانائیاں لگانے سے پہلے اس بات کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر لینی چاہیے کہ اس کے فوری اور دو ررس نتائج کیا ہوں گے؟ فوائد کے ساتھ نقصانات پر بھی گہری نظر ہو کہ ہم اس سارے معاملے میں اپنی حفاظت کو سب سے پہلے یقینی بناسکیں۔ زندگی کے کسی ایک میدان میں وقتی ہار سے پریشان نہ ہوں بلکہ اپنی تمام توجہ دوسرے اس کام میں لگا دیں جس کے لئے درکار مہارت آپ کے پاس موجود ہے۔مگر اس سارے عمل کو آپ اُسی وقت سرانجام دے سکتے ہیں کہ جب آپ نے اپنی حفاظت پر پوری توجہ مرکوز کی ہواور اپنی تونائیوں کو بچا کر رکھا ہو۔ جرأت اور بہادری سے مقابلہ کریں : جنگ ہو یا عام زندگی! جینا تو بہادری سے ہی پڑتا ہے ۔جنگوں میں ہر وقت اور عمومی زندگی میں اکثر اوقات آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی سوچ، شخصیت اور قابلیت آپ کے حالات اور ماحول سے بڑی ہے۔ جہاں سے ڈر کی سرحدیں شروع ہوں وہاں بہادری کا لباس پہن لینا ہی تو ہر سپاہی کی زندگی کا مشن اور مقصد ہوتا ہے۔ فوج کی ساری تربیت کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہوتا ہے کہ جنگی صورتحال میں اپنے حواس پر قابو کیسے رکھنا ہے اور کیسے پامردی اور جرأت سے دشمن پر قابو پانا ہے؟ بہادر لوگ ہی تو بڑے سے بڑا کام کر گزرتے ہیں۔ زندگی کو جینے کے لئے آپ کو بہادر بننا پڑے گا۔اتنا بہادر کہ آپ کوئی بھی رسک لے سکیں یعنی کسی کام یا مقصد کیلئے جان جوکھم میں ڈال سکیں۔ کچھ بڑا کرنے کیلئے بڑے حوصلے درکارہوتے ہیں۔ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی رگوں سے کامیابی اور خوشیاں کشید کرنا پڑتی ہیں۔ جو ہمت والوں اور بڑے حوصلوں کے مالک لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ ہمت کرو آگے بڑھواور بہادری سے بڑے بڑے عزائم کو طے کرو اور پھر ان کو حاصل کر کے دنیا کو بتادو کہ تُم سا بہادر کون ہو سکتا ہے؟ ہار سے بھی سیکھیں:غلطی کرنے یا ہونے سے کبھی بھی کوئی فرد یا قوم تباہ نہیں ہوتا۔لیکن غلطیوں پر اڑجانے اور ان سے نہ سیکھنے سے فرد اور قوم دونوں کوئی بھی تباہی اور بربادی سے نہیں بچا سکتا۔جب ہار جائو تویہی وُہ وقت ہے کہ جب آپ کو سوچنا ہے ۔اس وقت ا پنی اور اپنے دشمن یعنی مدِمقابل کی صلاحیتوں اور خامیوں کا تنقیدی جائزہ لو۔اپنی خامیوں کو دور کرو اور مدِمقابل کی خامیوں سے فائدہ اُٹھائو کامیابی حاصل کرنے کے لئے نیااور منفرد منصوبہ بنائو۔تاریخ گواہ ہے کہ صرف حکمتِ عملی میں تبدیلی لا کر ہاری ہوئی جنگیں جیتی گئیں ہیں۔ ہار اور جیت کبھی حتمی اور آخری نہیں ہوتی ۔ یہ صرف سبق ہیں جو آپ کو بتاتے ہیں کہ کیا کریں تو کامیابی مقدر بنتی ہے اور کس وجہ سے ہم ناکام ہوتے ہیں؟ آپ وجوہات کو جانیں گے تو کامیابی کا راستہ خود بخود آپ پر آشکار ہونے لگے گا۔ جنگوں میں پلٹنا ، جھپٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا کامیابی کو دعوت دیتا ہے تو ہار کے بعد دوبارہ اُٹھ کھڑے ہونے اورپھر سے کامیابی کی جدو جہد شروع کر دینا آپ کے خون کو گرمائے رکھتا ہے۔ کوئی ناکامی اُس وقت تک حتمی نہیں ہوتی جب تک آپ سے آخری نہ مان لیں۔وقتی شکست کو کامیابی میں بدلنا صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب آپ دوبارہ اپنی قوت کو مجتمع کر لیں۔ اگر آپ ہار گئے تو کوئی بات نہیں۔ دوبارہ اپنے حوصلوں کو جمع کریں اور پھر کامیابی کا سفر شروع کردیں۔کوشش کرتے رہیں گے تو کوئی امر مانع نہیں کہ ایک دن آپ زندگی کے اس سفر میں اتنے کامیاب نہ ہوں کہ لوگ آپ کی مثالیں دینے لگیں۔ ٭٭٭