مہک سے اپنی گَلِ تازہ مست رہتا ہے
وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے
نگاہ سے کبھی گزرا نہیں وہ مست انداز
مگر خیال سے، اندازہ مست رہتا ہے
کہاں سے ہے رَسدِ نشہ، اس کی خلوت میں
کہ رنگ مست کا اندازہ مست رہتا ہے
یہاں کبھی کوئی آیا نہیں مگر سرِ شام
بس اک گمان سے دروازہ مست رہتا ہے
مجھے خیال کی مستی میں کس کا اندازہ
خدا نہیں جو باندازہ مست رہتا ہے