تیرا وجود تو میرا گمان ڈوب گیا
افق میں دور کہیں آسماں ڈوب گیا
بھری ہیں جس طرح آنکھیں ہماری اشکوں سے
ہمیں تو لگتا ہے سارا جہان ڈوب گیا
ہوا سے رابطہ کرنے کی دیر تھی اور پھر
سمندروں میں میرا بادبان ڈوب گیا
تیرا خیال ابھرتا نہیں لبوں سے میرے
میری پناہ میں میرا سائباں ڈوب گیا
یہیں کہیں کوئی رویا ہے بیٹھ کر فرحتؔ
یہیں کہیں تمھارا نشان ڈوب گیا
***