ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی
پھر بھی Ù…Ø+بت صرف مسلسل ملنے Ú©ÛŒ آسانی تھی

جس دن اُس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
جس دن اُس کا خط آیا ہے اُس دن بھی ویرانی تھی

جب اُس نے مجھ سے کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی رُوداد یہ ہے
اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی

اُلجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
میرا مزاجِ عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روØ+انی تھی

نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا
اس کو دیکھ کے رُک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی

مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی

عشق Ú©ÛŒ Ø+الت Ú©Ú†Ú¾ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
لمØ+Û’ لافانی ٹھیرے تھے قطروں Ú©ÛŒ طغیانی تھی

جس Ú©Ùˆ خود میں Ù†Û’ بھی اپنی روØ+ کا عرفان سمجھا تھا
وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی

تھا دربارِ کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا
تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی