شرط
ترا کہنا ہے
’’مجھ کو خالقِ کون و مکاں نے
کِتنی ڈھیروں نعمتیں دی ہیں
مری آنکھوں میں گہری شام کا دامن کشاں جادو
مری باتوں میں اُجلے موسموں کی گُل فشاں خوشبو
مرے لہجے کی نرمی موجۂ گل نے تراشی ہے
مرے الفاظ پر قوسِ قزح کی رنگ پاشی ہے
مرے ہونٹوں میں ڈیزی کے گلابی پھُولوں کی رنگت
مرے رُخسار پر گلنار شاموں کی جواں حِدّت
مرے ہاتھوں میں پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے
مرے بالوں میں برساتوں کی راتیں اپنا رستہ بھُول جاتی ہیں
میں جب دھیمے سُروں میں گیت گاتی ہوں
تو ساحل کی ہوائیں
اَدھ کھلے ہونٹوں میں ،پیاسے گیت لے کر
سایہ گُل میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہیں
مرا فن سوچ کو تصویر دیتا ہے
میں حرفوں کو نیا چہرہ
تو چہروں کو حروفِ نو کا رشتہ نذر کرتی ہوں
زباں تخلیق کرتی ہوں ۔‘‘
ترا کہنا مجھے تسلیم ہے
میں مانتی ہوں
اُس نے میری ذات کو بے حد نوازا ہے
خدائے برگ و گل کے سامنے
میں بھی دُعا میں ہوں ،سراپا شکر ہوں
اُس نے مجھے اِتنا بہت کُچھ دے دیا، لیکن
تجھے دے دے تو میں جانوں