خُوشبو کی زباں
زباں غیر میں لِکھا ہے تُو نے خط مُجھ کو
بہت عجیب عبارت ، بڑی ادق تحریر
یہ سارے حرف مری حدِ فہم سے باہر
میں ایک لفظ بھی محسوس کر نہیں سکتی
میں ہفت خواں تو کبھی بھی نہ تھی۔مگر اس وقت
یہ صورت و رنگ، یہ آہنگ اجنبی ہی سہی
مجھے یہ لگتا ہے جیسے میں جانتی ہوں انھیں
(ازل سے میری سماعت ہے آشنا اِن سے!)
کہ تیری سوچ کی قربت نصیب ہے اِن کو
یہ وہ زباں ہے جسے تیرا لمس حاصل ہے
ترے قلم نے بڑے پیار سے لکھا ہے انھیں
رچی ہُوئی ہے ہر اک لفظ میں تری خوشبو
تری وفا کی مہک، تیرے پیار کی خوشبو
زبان کوئی بھی ہو خوشبو کی ۔وہ بھلی ہو گی