لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو
آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے
پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں ، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!
اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے