کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیر حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیونکر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے ، میں لا دوا کیونکر ہوا
تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا ، کیونکر ہوا
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا
٭ ٭ ٭ ٭