پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے
تو جو آئے تو مرے گھر میں خدا بھی آئے
اس قدر زخم لگائے ہیں زمانے نے کہ بس
اب کے شائد ترے کوچے کی ہوا بھی آئے
یہ بھی ہے کوچہ جاناں کی روایت کہ یہاں
لب پہ شکوہ اگر آئے تو دعا بھی آئے
میں نے سو طرح جسے دل میں چھپائے رکھا
لوگ وہ زخم زمانے کو دکھا بھی آئے
کیا قیامت ہے جو سورج اتر آیا ہے
میری آنکھوں میں در آئے تو مزہ بھی آئے
پچھلے موسم تو بڑا قحط رہا خوابوں کا
اب کے شائد کوئی احساس نیا بھی آئے
٭٭٭