استغاثہ
تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا
ہمارے سب خواب وقت کی بے لحاظ آندھی میں جل بجھیں گے
دو نیم دریا و چاہِ تاریک و آتش َ سرد و جاں نوازی کے سلسے ختم ہو گئے کیا
تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا؟
خدائے زندہ! یہ تیری سجدہ گزار بستی کے سب مکینوں کی التجا ہے
کوئی ایسی سبیل نکلے کے تجھ سے منسوب گل زمینوں کی عظمتیں پھر سے لوٹ آئیں
وہ عفو کی، درگزر کی، مہر و وفا کی روایتیں پھر سے لوٹ آئیں
وہ چاہتیں وہ رفاقتیں وہ محبتیں پھر سے لوٹ آئیں
٭٭٭