آنکھ سے روح کا غم ظاہر ہے
اس کا ایک ایک ستم ظاہر ہے
بے خیالی میں تمھاری ہی طرف
میرے اٹھیں گے قدم ظاہر ہے
کچھ چھپا لینے سے کیا ہے حاصل
ان کا جتنا ہے کرم ظاہر ہے
دل کے بھیگے ہوئے موسم کی فضا
از روئے دیدہ نم ظاہر ہے
تم بھلا دو گے تو پھر تم کو بھی
بھول ہی جائیں گے ہم ظاہر ہے
***