قریب روضہء اقدس صبا گئی کہ نہیں
مرا پیام بھی آقا کو دے سکی کہ نہیں
دل حزیں ہے تجھے لطف زندگی کہ نہیں
غم فراق نبی نے بھی دی خوشی کہ نہیں
کہا نہ تھا د ل مضطر تو نا م لے ان کا
اسی کے ورد سے راحت تجھے ملی کہ نہیں
کسی کے قدموں کی برکت گلی سے خودپوچھو
گز ر گئے و ہ جد ھر سے سنو ر گئی کہ نہیں
گناہ سر کا جھکا نا تھا ان کے در پہ مگر
جبین شو ق بتا تو و ہا ں جھکی کہ نہیں
وفا کا یوں تو ہے دعوی حضور سے سب کو
یہ دیکھنا ہے کہ ہے ربط و ا قعی کہ نہیں
تلاش کرتی ہے محشر میں عاصیوں کی نظر
ہو ئی حضو ر کی تشر یف آ و ر ی کہ نہیں
بشر وہ جس کو ہے خیرالبشر کہا رب نے
ہے یہ بھی ایک فضیلت بہت بڑی کہ نہیں
حضور کی ہے یہ امت نہ پوچھ اے رضواں
د ر و ن گلشن فر د و س جا ئے گی کہ نہیں
سنا رہا ہوں زما نے کو شوق سے نعتیں
یہ سو چتا ہو ں کہ سرکار نے سنی کہ نہیں
حدیث پاک تو پڑھتے رہے عقیدت سے
مگر بتائو! اطاعت بھی تم نے کی کہ نہیں
کہی ہیں تو نے تو غزلیں بہت مگر رضوؔی
کوئی پھڑکتی ہوئی نعت بھی کہی کہ نہیں
کلام : عبد الرزاق پیکر رضؔوی (ہند)