غزل
ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے
جگمگاتے ہیں افق پر یہ ستارے لیکن
راستہ منزل ہستی کا مہیب آج بھی ہے
سر مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے
اہل دانش نے جسے امرِ مسلم مانا
اہلِ دل کے لیے وہ بات عجیب آج بھی ہے
یہ تری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سا رگِ جاں کے قریب آج بھی ہے
کون جانے یہ تیرا شاعرِ آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔