کیمیائی ہتھیار
محمد شاہد
مہلک اور زہریلے کیمیکلز کو بطور ہتھیار دشمنوں کو ہلاک یا زخمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں کیمیائی ہتھیاروں کانام دیا جاتا ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں میں خطرناک مادے گیس، مائع یا ٹھوس شکل میں ہوتے ہیں جو انسان، حیوانات اور نباتات پر زہریلے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان کا اثر سانس، خوراک کے ذریعے یا براہِ راست جلد پر ہو سکتا ہے۔ کیمیائی مادے اس وقت کیمیائی ہتھیاروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جب انہیں توپ یا ٹینک کے گولے، بارودی سرنگ، فضائی بم، میزائل، مارٹر شیل، گرینیڈ وغیرہ میں ڈال کر نشانہ بنایا جائے۔ دور جدیدمیں پہلی مرتبہ کیمیائی ہتھیار پہلی عالمی جنگ میں استعمال ہوئے اور گیسوں کے ذریعے بڑی تعداد میں سپاہ ہلاک ہوئیں۔ بعدازاں کیمیائی ہتھیاروں کو بہت سے مواقع پر استعمال کیا گیا بالخصوص ایران عراق جنگ (1980-88ئ) کے دوران۔ سرد جنگ (1945-91ئ)میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اور سوویت یونین نے کیمیائی ہتھیاروں کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا۔ سرد جنگ کے بعد سابق حریفوں نے ہر قسم کے کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی لگا دی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران تیار ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کو ’’فرسٹ جنریشن‘‘، دوسری عالمی جنگ میں تیار ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کو ’’سیکنڈ جنریشن‘‘ اور سرد جنگ کے دوران تیار کردہ کیمیائی ہتھیاروں کو ’’تھرڈ جنریشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی طرح حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ 1993ء کے کیمیکل ویپن کنونشن کے مطابق جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال، تیاری، پیداوار، حصول، ذخیرہ یا منتقل کرنا ممنوع ہے۔ اس کے باوجود کیمیائی ہتھیار ختم نہیں ہو پائے۔ یہ چند ممالک کے پاس موجود ہیں۔زہریلے اور مہلک کیمیائی مادے تو بہت سے ہیں لیکن 1900ء سے اب تک چند درجن مادوں ہی کو کیمیائی ہتھیاروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ٭…٭…٭