بے نام اُلجھن



یہ کیا بے نام اُلجھن ہے

نجانے آگہی اور خواب کے مابین کیسا مسئلہ ہے

کہ ہر تخلیق سے پہلے

عجب اِک خوف دل کو گھیر لیتا ہے

مجھے Ù…Ø+سوس ہوتا ہے

میں اپنی آخری تØ+ریر Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ جا رہی ہوں

سخن کی شب کے ماتھے پر

وہ میرے نام کے جتنے ستارے تھے

وفا کے اِستعارے تھے

سب اپنی عُمر پُوری کر چکے ہیں

یہی دھڑ کا سا رہتا ہے

کہ جتنے شعر لکھے تھے

جنھیں میں

اپنے ہونے Ú©ÛŒ گواہی Ú©ÛŒ طرØ+ Ù…Ø+سوس کرتی تھی

یہ اب لکّھے نہ جائیں گے

یہ اب سوچے نہ جائیں گے

مری نظمیں

جواب تک آرزوؤں کا سُنہرا عکس بن کر جھلملاتی تھیں

Ù…Ø+ّبت Ú©ÛŒ زمینوں پر اُترتے

ہجر کے اور وصل کے سب موسموں کی بات کرتی تھیں

انھیں تØ+ریر کرنے کا ہُنر بھی بھُول جاؤں Ú¯ÛŒ

گُماں یہ بے ثباتی کا

یقیں بن بن Ú©Û’ ہر لمØ+ہ

بڑی شدت سے میرے ذہن کا دامن ہلاتا ہے

یہی باور کراتا ہے

کہ Ø+رف Ùˆ لفظ کا جتنا اثاثہ تھا

فنا Ú©ÛŒ سرØ+دوں پر ہے

سخن سّچائی کا سارا تفاخر ٹوٹنے کو ہے

Ù…Ø+ّبت رُوٹھنے Ú©Ùˆ ہے

یہ کیا بے نام اُلجھن ہے

کہ ہر تخلیق سے پہلے

عجب اِک خوف دِل کو گھیر لیتا ہے

مُجھے Ù…Ø+سوس ہوتا ہے

میں اپنی آخری تØ+ریر Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ جا رہی ہوں