برطانوی ٹینکوں میں چائے نوشی 37فیصد شکست کے پیچھے چائے نوشی اور ٹینکوں کی بدبو تھی
پرتگالیوں نے ایشیاء میں داخل ہونے کے بعد برطانویوں کوچائے کا عادی بنایا۔’’چائے پینے کا چلن‘‘ انہوں نے پرتگالیوں سے ہی سیکھا۔ کہتے ہیں کہ چائے پینے سے نیند بھاگ جاتی ہے مگر کبھی کبھی چائے کا وقفہ اور بوریت برطانوی فوجیوں کے لیے مصیبت کا باعث بھی بن جاتی ہے۔دوران جنگ ’’چائے کے وقفہ‘‘کے دوران برطانوی عملہ ٹینکوں سے باہر نکل کر چائے بنانے لگتا ہے۔ سب مزہ لیتے ہیں،دشمن بھی موج کرتا ہے اور ٹینک سے باہر نکلتے ہی انہیں اپنی گولیوں کا نشانہ بنا لیتا ہے۔افریقہ اور یورپ میں لڑی جانے والی جنگوں میں کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ فوجی جوان سستانے،چائے پینے یاٹینک کی بدبو سے بچنے کے لئے باہر نکلے اور دشمن نے عین اسی وقت حملہ کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جنگ عظیم کے چھڑتے ہی پہلے دشمن نے 15منٹ میں برطانوی فوج کے 14 ٹینک ،2 اینٹی ٹینک توپیں اور 4 اسلحہ بردار کیریئر تباہ کردیئے تھے۔ فوجی کچھ دیر کے لئے ٹینکوں سے باہر نکلے ، قریب ہی ہٹلر کے سپاہی اپنے ٹینکوں پر موجود تھے جنہوں نے حملہ کر کے انہیں نقصان پہنچایا۔ ہوا یوں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران چائے کا ایک کپ برٹش آرمی کے توپ خانے کی قیاد ت کرنے والے افسر کی شکست کا باعث بنا ۔12جون 1944ء کو جنگ عظیم چھڑے 6دن گزرے تھے۔ اتحادی فوجوں نے نارمنڈی (Normandy)کے مقام پر ایک بہت بڑا حملہ کیا۔برطانوی جنرل (ر)برنارڈ منٹگمری (Bernard Montgomery)نے 22ویں آرمڈ بریگیڈکو جرمن فوجوں کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی ہدایت دی، اور انہیں سٹی آف شیان (Caen) کے قریب رکنے کا حکم دیا۔ چنانچہ فوجیوںنے اپنے اپنے ٹینک سٹی آف شیان سے 18 میل کے فاصلے پر روک لیے ۔لندن میں فورتھ کائونٹی آف لندن کا سکوارڈن پوائنٹ 213نامی جگہ پر کھڑا تھا، اسی مقام پر انہیں جنگ کے بارے میںہلکی پھلکی بریفنگ دی گئی ۔یہاںکے کمانڈرمائیکل وٹ مین تھے۔جنگ کرسک (Krusk)میں انہیںکافی تمغے ملے تھے۔مگر دوسری جنگ عظیم میں ان کی 12 ویں ٹینک کمپنی میں چار ہی ٹینک سلامت بچے تھے۔ روسی ٹینکوں اور توپ خانے کے بھاری گولوں نے برطانوی توپ خانے کو کافی نقصان پہنچایا ۔مگر سپاہی عادت سے مجبورتھے۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے پہلا کام چائے پینا تھا۔ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ صرف 200میٹر کے فاصلے پرروسی ’’ٹائیگر ٹینکوں‘‘سے حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ وہ وہاںکب پہنچے ؟چائے نوشوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اب وٹ مین کے پاس دشمن سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا ،انہوں نے سب کو اسی علاقے میں ڈٹے رہنے کا حکم دیا ۔ اور خود 9 بج کر 5منٹ پر آگے بڑھ گئے۔ یہاںانہوںنے ایک ٹینک تباہ کرڈالا ۔ برطانوی ٹینک کا 17 پاؤنڈ وزنی گولہ کسی بھی ٹینک کے لیے بھی انتہائی تباہ کن تھا ۔ روسی بھی کم نہ تھے۔ پوائنٹ213نامی مقام پر ہلکی پھلکی جنگ ہوئی ۔صبح سویرے برطانوی فوج نے نے دشمن کو کافی نقصان پہنچا ۔ برطانیہ نے اس جنگ کے نقصانات پر سنجیدگی سے غورکیا ۔1946ء میں برٹش میڈیکل ریسرچ کونسل نے مارچ1945ء کے بعد سے افریقہ اور یورپ میں توپ خانے اور بکتر بند گاڑیوںکو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا۔ تب انہیں پتہ چلا کہ جنگوں کے دوران جب برطانوی یا افریقی عملہ ٹینکوں سے باہر نکل کر چائے پینے لگتاہے تو عین اسی لمحہ دشمن کے گولے ان کے ٹینکوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا کہ برطانوی فوج چائے نہ ملنے سے بوریت محسوس کرنے لگتی ہے،یوں جنگ بھی ہارجاتی ہے۔محققین نے بتایا کہ37فیصد نقصانات اس وقت ہوئے جب عملہ ٹینکوں یا بکتر بند گاڑیوںسے باہر تھا۔ اکثر کو چائے اور کھانے کی طلب تھی ۔کچھ سپاہیوں نے بدبو اور کچھ نے گولوں کے دھویںکی شکایت کی۔ اس تحقیق کی روشنی میں تمام ٹینکوں میں فوری طور پر راشن اور واٹر ہیٹر کے انتظامات کئے گئے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تمام برطانوی ٹینکوںمیں توپوں اورگولوں کی طرح برقی کیتلی اورکھانے پینے کے سامان کو بھی ناگزیر ضرورت سمجھاجانے لگا ہے۔ ایک بڑی کمپنی نے خصوصی طور پر چائے بنانے اور کھانا گرم کرنے کے لئے برقی آلات تیار کئے ۔اس وقت سے آج تک کوئی برطانوی ٹینک یا بکتر بند گاڑی چائے کے ساز وسامان کے بغیر اپنے فوجی اڈے سے نہیں نکلی، ورنہ شکست کا امکان 37فیصد تک ہو سکتا ہے !اسی لئے ٹینکوں سے منسلک برطانوی سپاہی سے جرنیل تک ، سب ہی چائے بنانے کا بہت اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان فوجی افسروں کی بیویاں کبھی ان سے ناراض نہیں ہوئیں،وہ خود بھی اپنے لیے چائے بناتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے لیے بھی۔وہ حالت جنگ میںبھی ٹینکو ں میں بیٹھے چائے کی چسکیاں بھرتے ہیں۔ کئی پونڈ وزنی گولہ دشمن پر داغتے وقت جدید ترین برقی کیتلی میں چائے ابل رہی ہوتی ہے۔ہے نا مزے کی بات! ٭…٭…٭