نازیہ حسن نئے رجحانات متعارف کرانے والی گلوکارہ
وہ صرف خوبصورت آواز ہی نہیں، خدوخال کی بھی ملکہ تھی۔ کشادہ پیشانی، سحر انگیز آنکھیں اور نکھری رنگت، اس کے ملکوتی حسن کا استعارہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا انداز گائیکی یعنی پاپ گائیکی، مارشل لاء کے دور میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا تھا۔ نہ صرف گائیکی میں بلکہ ادائیگی اور پیشکش کے حوالے سے بھی نازیہ حسن کا شمار جہاں نئے رجحانات متعارف کرانے والی گلوکارہ کی صف میں ہوتا ہے وہاں ان کا وجود بھی گائیکی کے سخت اور پتھریلی زمین پر کسی پہاڑ سے اترنے والے جھرنے سے کم نہ تھا۔ نازیہ حسن 3اپریل 1965ء کو لندن میں پیدا ہوئیں، بچپن سے ہی گلوکاری کی خداداد صلاحیتیں موجود تھیں، بھائی زوہیب حسن کے ساتھ جوڑی بنی، نازیہ حسن نے اپنے فنی سفر کا آغاز بدو کی ڈائریکشن سے کیا۔ ان کے ’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘‘ گانے نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی اور صرف 15 سال کی عمر میں نازیہ حسن کا ڈنکا بجنے لگا۔ 1980ء میں نازیہ حسن کا پہلا البم ’’ڈسکو دیوانے‘‘ ریلیز ہوا جس نے پاکستان، بھارت سمیت پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس کے بعد 1982ء میں بوم بوم، 1984ء میں ینگ ترنگ، 1987ء میں ہاٹ لائن اور 1992ء میں کیمرہ کیمرہ کے نام سے البم ریلیز ہوا ، ان سے پاکستانی سرسنگیت کا نام پوری دنیا میں روشن ہوا۔ نازیہ حسن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ آئی، چھائی اور چلی گئی۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں مغربی موسیقی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا تا تھا لیکن نازیہ حسن نے وہ کام کر دکھایا جو کوئی نہ کر سکا۔ پاکستان میں پاپ میوزک نازیہ حسن کی مرہون منت ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں پاپ میوزک کا سہرا انہی کے سر ہے۔ دونوں بہن بھائی پہلے جنوبی ایشیا کے گلوکار ہیں جن کے البم نے بین الاقوامی پذیرائی حاصل کی۔ خوبصورتی، عمدہ انداز بیان کے اعلیٰ مقام میں لیڈی ڈیانا سے کم نہ تھیں۔ انہوں نے لندن میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف میں بھی کام کیا۔ 30مارچ 1995ء کو کراچی کے صنعتکار مرزا اشتیاق بیگ سے شادی ہوئی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئیں اور 3 1اگست 2000ء کو 35 سال کی عمر میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔ نازیہ حسن نے 5 البم کئے جبکہ 6 فلموں میں پلے بیک سنگر کے طور پر کام کیا۔ 1975ء میں پہلی بار کلیوں کی مالا پروگرام میں بطور چائلڈ آرٹسٹ آئیں اور ’’دوستی ایسا ناتا‘‘ گایا، 1977ء میں سنگ سنگ چلے، 1981ء میں بی بی سی شو، ڈسکو دیوانے، دور درشن، بی بی سی نیوز، ضیاء محی الدین شو، 1984ء میں ینگ ترنگ، 1985ء میں ’’آپ کے لئے‘‘، 1986ء پی ٹی وی الیکشن ٹرانسمیشن، 1987ء میں بس سر نوسر، ٹی وی ہٹس، بی بی سی شو، 1988ء میں پی ٹی وی ایوارڈ، 1989ء میں میوزک 1990-89ء میں پی ٹی وی سلور جوبلی، 1992ء میں عید شو، 1993ء میں آئی ویٹس، کلیاں، 1995ء میں سویرے، سویرے، 1998ء میں پی ٹی وی ورلڈ شو، 1999ء میں زی ٹی وی میں پروگرام کیا جو ان کی زندگی کا آخری پروگرام تھا، آخری گانا ’’ٹاہلی دے تھلے بے کے‘‘ گایا جس کو بے حد سراہا گیا۔ یہ ان کا پہلا پنجابی گانا تھا۔ نازیہ حسن کا ناقابل فراموش کارنامہ ہی تو ہے کہ ہم ان کے جہاں سے گزر جانے کے باوجود انہیں اپنے درمیان نہ صرف محسوس کر سکتے ہیں بلکہ ان کے انداز گائیکی میں ماضی کا احساس لئے دیگر پاپ سنگرز کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ وہ کسی شاعر کی مانند درد دل رکھتی تھیں۔ موسیقی، ادائیگی، لب و لہجہ اور وجود کسی خوبصورت گلدان میں بکھرتے پھولوں سے کم نہ تھا اور خوشبو بھی ابدی… عارضی اور وقتی احساسات سے دور خوشی کا نیا احساس لئے۔ نازیہ حسن کی آواز سرتال کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے نزدیک فطری آواز تھی۔ 3 اپریل کو ان کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ ان کے گانے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ وہ دنیا کے کروڑوں مداحوں کے دلوں میں آج بھی ماضی کی خوبصورت یادوں کی طرح زندہ ہیں۔ ٭…٭…٭