بھارت میں ٹک ٹاک پر پابندی کا حکم
بھارت میں مدراس ہائی کورٹ نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے نریندر مودی کی قیادت والی وفاقی حکومت کو چینی ویڈیو موبائل میوزک ایپ‘ٹِک ٹاک’ پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ اس موبائل ایپ سے پورنوگرافی کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور اس کی لت نوجوانوں کے مستقبل اور بچوں کے اذہان کو تباہ کر رہی ہے۔
مدراس ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ بھارت میں یہ قدم اس لئے ناگزیر ہوگیا ہے کیوں کہ ‘ٹِک ٹاک’ پر فحش مواد دستیاب ہے، جسے بچے بھی دیکھ رہے ہیں اور اس طرح کی ایپ پر پابندی لگانا حکومت کی سماجی ذمے داری ہے۔ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش اس ایپ پر پابندی عائد کر چکے ہیں جب کہ امریکہ میں بچوں کو نقصان دہ آن لائن مواد سے بچانے کے لیے ضابطے بنائے گئے ہیں۔ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے پوچھا ہے کہ ‘‘حکومت یہ جواب دے کہ کیا وہ بچوں کو سائبر کرائم کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے امریکہ کے چلڈرن آن لائن پرائیویسی پروٹیکشن ایکٹ کی طرز پر بھارت میں بھی قانون بنا سکتی ہے ؟’’۔
عدالت نے اس کے ساتھ میڈیا کو اس ایپ پر بنائی گئی ویڈیوز کو ٹیلی کاسٹ کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ٹِک ٹاک ایپ کے استعمال کرنے والے زیادہ تر نوجوان اور نوعمر ہیں اور وہ اس کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹِک ٹاک اور اس طرح کی دیگر ایپس کی سائبر گیمز کے ذریعے نو عمروں کے مستقبل اور بچوں کے سادہ اذہان کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ جو بچے ٹِک ٹاک استعمال کر رہے ہیں وہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کے رابطے میں آنے سے غیر محفوظ ہیں۔ ٹِک ٹاک مختصر ویڈیوز بنانے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی ایک ایپ ہے۔ چین کی بائٹ ڈانس ٹیکنالوجی کمپنی کی ملکیت والی اس ایپ کو ستمبر 2016ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد اسے غیر ملکی مارکیٹ میں پیش کیا گیا۔ اس طرح کی ایپس کا تجزیہ کرنے والی کمپنی ‘سینسر ٹاور’ کے مطابق ٹِک ٹاک کو اب تک دنیا بھر میں ایک سو کروڑ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔ دنیا میں اس ایپ کا استعمال کرنے والوں کی تعداد پانچ سو ملین ہے ۔ سن 2018ء میں یہ دنیا کے ڈیڑھ سو ملکوں میں پچھہتر زبانوں میں دستیاب تھی۔ فی الحال یہ دنیا میں تیسری سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ ہے ۔ بھارت میں اس کے صارفین کی تعداد ماہانہ تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ ٹِک ٹاک ایپ کے ذریعے لو گ چھوٹی ویڈیوز بنا کر ان میں سپیشل ایفیکٹس ڈال اور اسے شیئر کر سکتے ہیں۔ بھارت میں خصوصاً دیہی علاقوں میں یہ ایپ کافی مقبول ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ ٹِک ٹاک کا ‘خطرناک پہلو’ اس کا غیر مناسب مواد ہے۔ عدالت کا کہنا تھا، ‘‘ہمارے بچے جنسی استحصال کرنے والوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ افسوس ناک ہے کہ ہمارے بچے اس طرح کی ایپ استعمال کر رہے ہیں۔’’ عدالت نے اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پہلے ہی کارروائی کرنی چاہیے تھی خاص طور پر‘بلیو وہیل چیلنج ’ کے بعد تو اس کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں، ‘‘بلیو وہیل چیلنج کے بعد بھی حکام نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ افسران اور پالیسی سازوں کی آنکھیں صرف اسی وقت کھلتی ہیں، جب سماج ان مسائل میں گھر جاتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کی ایپس کے نقصانات سے بچنے کے لیے بروقت فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔’’
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹِک ٹاک ایپ کو استعمال کر کے دوسروں کا مذاق بنانا ان کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ عدالت کا کہنا تھا، ‘‘لوگ تفریح کے نام پر ایک دوسرے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ٹیلی ویژن چینل بھی ٹِک ٹاک ویڈیوز کو ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں۔ اس پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہیے۔’’ مدراس ہائیکورٹ کے حکم کے بعد ٹک ٹاک انڈیا کی انتظامیہ نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ وہ مقامی قوانین اور ضابطوں پر عمل کرتی ہے ،‘‘ہم مقامی قوانین اور ضابطوں پر عمل کرتے ہیں۔ ہم بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون2011ء پر مکمل عمل کرتے ہیں۔ فی الحال ہم مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقل موصول ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فیصلے کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس معاملے میں مناسب کارروائی کریں گے۔ ایک محفوظ اور مثبت ایپ ہماری ترجیح ہے ۔’’