ہونے کا دھوکا ہی تھا
جو کچھ تھا وہ تھا ہی تھا
اب میں شاید تہہ میں ہوں
پر وہ کیا دریا ہی تھا
بُود مری ایسی بِکھری
بس میں نے سوچا ہی تھا
بھُولنے بیٹھا تھا میں اُسے
چاند ابھی نِکلا ہی تھا
ہم کو صنم نے خوار کیا
ورنہ خدا اچھا ہی تھا
کیسا ازل اور کیسا ابد
جس دَم تھا لمحہ ہی تھا