ادھر بھی دیکھ کبھی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے
ہم آج بھی ہیں تیری رہگذر میں بیٹھے ہوئے
عجیب شکلیں بناتی رہی ہے تنہائی!
میں ڈر گیا تھا خود اپنے ہی گھر میں بیٹھے ہوئے
کھلی ہے آنکھ مگر نیند ٹوٹتی ہی نہیں
وہ خواب تھے کہ ہیں اب تک نظر میں بیٹھے ہوئے
چمک رہا ہے تیرا شہر جگنوؤں کی طرح
کہ ہیں ستارے میری چشمِ تر میں بیٹھے ہوئے
بچھڑ کے تجھ سے ، نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے، شجر میں بیٹھے ہوئے
چھپا ہوا ہوں کہ سب شغل پوچھتے ہیں میرا
وگرنہ کٹتا ہے کب وقت، گھر میں بیٹھے ہوئے
ازل سے گھوم رہا ہوں بس ایک محور پر
میں تھک گیا ہوں زمیں کے بھنور میں بیٹھے ہوئے
کروں بھی کام کہاں اپنی سطح سے گر کر
کہ آشنا ہیں مرے،شہر بھر میں بیٹھے ہوئے