تمثیل
(پہلا منظر)
میں لمحوں کا گدا گر تھا
تمہارے جاوداں افروز لمحوں کی پذیرش کا گداگر تھا
سراسر اک گداگر
ایک بے کشکول و کاسہ ایک بے کوچہ بہ کوچہ
بے صدا و بے دعا از خود گزشتہ اک گداگر تھا
جو گمانِ پُر سرو سودا کے جاں پرور سراغ آرزو آگیں میں
رفتہ اور آئندہ کے خوابوں کی گدائی پیشہ کرتا ہے
خیالوں کو ، نفس بودش خیالوں کو ، ابد اندیشہ کرتا ہے
یہ اک تمثیل تھی بے صحنۂ تمثیل
اور جو کچھ تھا یہی تھا بس یہی کچھ تھا
(دوسرا منظر)
پھر اس کے بعد جانانہ
تمہاری جاودانہ آرزو کے بازوانِ مرمریں
میرے، مرے آغوش کے مرگِ سفیدِ بے فغاں میں
میری دل جُو زندگی تھے ارجمندی تھے
میں جن میں خرم و خُرسند رہتا تھا
یہ میری دم بہ دم کی زندگی کی صحنہ تابی تھی
مری ہر آرزو پہلو بہ پہلو سبزہ گوں تھی اور شہابی تھی
(تیسرا منظر)
پھر اس کے بعد کے منظر میں
(یعنی اس گھڑی)
جو پیش آیا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ میں تم میں
تمہارے جاں فزا آغوش کی نزدیک تر خوشبوئی میں
اور اس کے گرداگرد میں دم توڑ دیتا ہوں
پھر اس کے بعد زندہ ہو کے اُٹھتا ہوں
قیامت کی ہنسی ہنستا ہوں
پھر سکتے میں رہ جاتا ہوں
آخر اک نہایت خندہ آور گریہ کرتا ہوں