زہرِ ناب کا دن
**جاوید معنی کی وفات پر**
ہم سے بے واسطہ نہیں ہے وہ
وہ یہیں تھا یہیں کہیں ہے وہ
کر گیا ہے وہ رَم کسی جانب
اک غزالِ غزل زمیں ہے وہ
میرا جاوید، معنی جاوید
خود بھی ایک شعر دل نشیں ہے وہ
میں ہوں اپنا حریفِ سخت کماں
روزِ ہیجاں مری کمیں ہے وہ
در شبِ کوچ یارِ من فروخت
کہ مرا سالکِ گزیں ہے وہ
آخرش میرا ہی تو ہے شاگرد
سب جہاں ہیں، وہیں نہیں ہے وہ
کیسے میں سہہ سکوں گا ہجر اس کا
کہ میرا ناز و نازنیں ہے وہ
خاک گنجینۂ زمیں ہو خاک
زیرِ گنجینۂ زمیں ہے وہ
غم میں غالب کا سہہ رہا ہوں آج
آج عارف کا ہم نشین ہے وہ
اب زمیں بوس آستاں ہوں میں
آسماں مرتبہ جبیں ہے وہ
اُس نے مارا ہے اپنے مرشد کو
کِس بَلا کا جہنمیں ہے وہ
اب رگوں میں مری بچا ہے جو خوں
مالِ مژگاں و آستیں ہے وہ
پڑ گیا چین، دل ہوا یک سو
وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ
نالہ ہا، شور ہا، تپیدن ہا
میرے ہوتے کفن گزیں ہے وہ
آج کا دن نہیں شراب کا دن
آج ہے جونؔ زہرِ ناب کا دن