بے ساز و ساماں
حقیقت مجھ کو راس آتی نہیں ہے
غزالہ! تم فقط اک خواب ہو کیا
تمہاری جاودانہ جستجو ہے
مری جاں! تم جو ہو نایاب ہو کیا
سراپا سحر، یکسر بے نیازی
تم اِک آہنگِ بے مضراب ہو کیا
o
مری زیبُ النسائے شعر ہو تم
تمہارا سحر میری شاعری ہے
تمہاری آرزوئے جاودانہ
جمالِ جاودانِ زندگی ہے
تمہیں ہے پر دیکھا نہیں ہے
تمہارے خواب کو سجدے کیے ہیں
تمہارے ہجرِ بے وعدہ میں میں نے
تمہاری یاد کے بوسے لیے ہیں
بدن ہو تم خیالِ جاوداں کا
بدن کو پیرہن بھی چاہیے
شمیمِ جاں نوازِ یاسمن کو
نہالِ یاسمن بھی چاہیے ہے
نظر ہے خواب کی بے ساز و ساماں
نظر کو بھی تو کچھ بخشو مری جاں