اپنی زمین کے لیے ایک نظم


خواب،آنکھوں کی عبادت ہیں
گئی رات کے سناٹے میں
اپنے ہونے کا یقیں بھی ہیں
گُل و نغمہ کا اثبات بھی ہیں
خواب کے رنگ ڈھنگ سے بڑھ کر
کبھی پلکوں پہ ستارہ،کبھی آنکھوں میں سØ+اب
کبھی رُخسار پہ لالہ،کبھی ہونٹوں پہ گلاب
کبھی زخموں کا،کبھی خندۂ گل کا موسم
کبھی تنہائی کا چاند اور کبھی پچھلے پہر کی شبنم
خواب،جو تجزیۂ ذات ہوئے
ان کو جب فرد کی نیندوں کی نفی کر کے لکھا جائے
تو اک قوم کا ناقابل تردید تشخص بن جائیں !
وہ خزاں زاد تھا
اور بنتِ بہار
اُس Ú©ÛŒ آنکھوں Ú©Û’ لیے خوابِ Ø+یات
اپنے اس خواب کی تقدیس بچانے کے لئے
وہ اماوس کی گھنی راتوں میں
رت جگا کرتا رہا
اورایسے،کہ نیا موسمِ گُل آیاتوسب نے دیکھا
جھلملاتے ہُوئے اِک تارے کی اُنگلی تھامے
چاند پرچم پہ اُتر آیا ہے
سنگریزوں میں گلاب اُگتے ہیں
شہرِ آذر میں اذاں گونجتی ہے
خوشبو آزاد ہے
جنگل کی ہَوا بن کے سفر کرتی ہے
نئی مٹی کا،نئی خواب زمینوں کا سفر
یہ سفر____رقصِ زمیں ،رقصِ ہَوا،رقصِ Ù…Ø+بت ہے
جواَب لمØ+ہ موجود تک Ø¢ پہنچا ہے