تمام شب یُونہی دیکھیں گی سُوئے در آنکھیں
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
طلوعِ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں!
یہ دشتِ شب میں ستاروں کی ہمسفر آنکھیں
ستم یہ کم تو نہیں دلگرفتگی کے لیے !
میں شہر بھر میں اکیلا، اِدھر اُدھر آنکھیں
شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرِتا ہے چھین کر آنکھیں
وہ پاس تھا تو زمانے کو دیکھتی ہی نہ تھیں
بچھڑ گیا تو ہُوئیں پھر سے در بدر آنکھیں
ابھی کہاں تجھے پہچاننے کی ضد کیجئے!
ابھی تو خود سے بھی ٹھہری ہیں بےخبر آنکھیں
میں اپنے اشک بچاؤں گا کس طرح محسن ؟
زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر انکھیں
محسن نقوی