اے مرے بیدرد شہر
دل سلگ اٹھتا ہے اپنے بام و در کو دیکھ کر
پھیلنے لگتی ہیں جب بھی شام کی پرچھائیاں
اس قدر ویران لمحے، اس قدر سنسان رات
سوچ میں گم ہیں اُفق سے تا اُفق پہنائیاں
کس لیے روشن کروں دیوار و در کوئی تو ہو
گنگ دیواروں میں کیا ہوں انجمن آرائیاں
درد ہر شب جاگ اٹھتے ہیں کئی ماہ و نجوم
آگ بھڑکاتی ہیں سنگ و خشت کی رعنائیاں
راستوں سے خاب گاہوں تک مسلسل موجِ رنگ
جس طرح قوسِ قزح کی ٹوٹتی انگڑائیاں
زخمِ نظارہ لیے آنکھوں میں چپ تکتا رہا
گو مری نیندیں بھی مجھ سے لے اڑیں شہنائیاں
کل ذرا سی دیر چمکے تھے مرے دیوار و در
جھلملا اٹھیں تھیں میری روح کی گہرائیاں
چند لمحوں کے لئے لو دے اٹھا تھا اک چراغ
اور دمک اٹھی تھیں کچھ لمحے مری تنہائیاں!
آج اتنا شور کیوں ہے اے مرے بیدرد شہر
ہر نظر میری طرف ہے اس قدر رسوائیاں؟
٭٭٭