گو ترقی پہ جمالِ مہِ کامل ہووے
منہ تو دیکھو کہ ترے منہ کے مقابل ہووے
ماہ کیا، سامنے گر آپ کے خورشید آئے
دعوٰیِ نور سے خجلت اسے حاصل ہووے
کیا یہ خورشید کہ خورشیدِ قیامت ہو اگر
روبرو آپ کے رہنا اسے مشکل ہووے
شانِ اجلال پہ آجائیں اگر وہ رخسار
کس کو طاقت ہے کہ اس وقت مقابل ہووے
یاں خوش آیا نہیں جز ذکرِ گلِ عارضِ پاک
نغمہِ عود ہو یا صوتِ عنادل ہووے
مِلکِ دنیا کو وہ کیا خاک میں لے کے ڈالے
جو کوئی دولتِ دیدار کا سائل ہووے
آہ برباد نہ ہو جائے مرا نالہ و آہ
آہ کے ساتھ نہ گر جذبہِ کامل ہووے
اب تو بے ڈھب دلِ حسرت زدہ گھبراتا ہے
یا الٰہی! شبِ فرقت کہیں زائل ہووے
لائیں گر آپ کی تصویر نکیر و منکر
کیا عجب گور مری خلد کی منزل ہووے
ہے تمنا یہی دن رات کہ روزِ محشر
دستِ کافؔی میں ترا پایہِ محمل ہووے