محبت خواب جیسی ہے
کسی بھی آنکھ کی پُتلی پہ چُپکے سے
اُترتی ہے، نشاں سا چھوڑ جاتی ہے
یقیں کے رنگ دھندلا کر
گماں سا چھوڑ جاتی ہے
محبت کا کوئی کلیہ، کوئی قانون
لوگوں کی سمجھ میں آ نہیں سکتا
کوئی بھی اس کے گہرے بھید ہرگز پا نہیں سکتا
چمکتی دھوپ کی ان چلچلاتی زرد تاروں سے،
بُنا ہے اس کو فطرت نے
یہ سب رنگوں سے برتر ہے
مگر ہر رنگ اس میں گھل گیا گویا
چھوؤ تو ہاتھ کی پوریں گُلابی ہوں
سماعت میں اُترتی دھیمی دھیمی چاپ جیسی ہے
کتابِ زیست کے بھولے ہوئے سے باب جیسی ہے
محبت خواب جیسی ہے
٭٭٭