سوشل میڈیا:ذہنی دبائو میں 75فیصد اضافہ
تحریر : ڈاکٹر سید فیصل عثمان
’’سوشل میڈیا بطور میدان جنگ‘‘۔۔ 13مارچ 2019ء کو لندن میں مقیم رائٹرکے نامہ نگار نے سوشل میڈیا کو’’ میدان جنگ‘‘ قرار دیا۔میدان جنگ کو خالی کرانا حکومتوں پر لازم ہے۔امریکی ریاست فلوریڈا میں تیار کردہ نئے قانون کے مطابق پر سوشل میڈیا پر دھمکیاں دینے اوراسلحہ کے استعمال کی تصاویر دکھانے والوں کو نابالغوں کو ترغیب دینے کے الزام میں حراست میں لے لیا جائے گا ۔
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لئے ویسٹ یارک شائر پولیس نے ایک 16سالہ نوجوان کو بھی حراست میں لے لیا ہے ۔اس نے اپنے حریف کو کالے گدھے کے خطاب سے نوازے کے بعد دوسرے سخت الفاظ کے ساتھ فلیم بلنگ کو گروپ سے نکلنے کا مشورہ دیا تھا۔ 14مارچ 2019ء کو سوشل میڈیا کے بے تحاشہ استعمال کے اثرات پر بی بی سی نے تفصیلی خبر جاری کی۔بی بی سی نے اسے بچوں بالخصوص ٹین ایجرز میں ذہنی امراض کا ایک سبب قراردیا۔’’ پبلک آڈٹ کمیٹی ‘‘ نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر وزراء سے کمیشن بناکر اس پر تحقیق کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ گذشتہ 5برس کے دوران بچوں کے ذہنی امراض میں 22فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ 5برسوں میں سکاٹ لینڈ میں ذہنی امراض کے حوالے سے رجوع کرنے والے یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی تعداد میں دو تہائی اضافہ ہوا ہے۔ 2012میں 7ہزار طلبہ نے ذہنی امراض کے علاج میں معاونت مانگی۔2016ء میں یہ تعداد 1170 ہوگئی ۔گلاسگو یونیورسٹی میں مذکورہ عرصے میں ذہنی پریشانیوں میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں75فیصد،گلاسگو سکول آف آرٹس میں 72فیصد اور یونیورسٹی آف سڑلنگ میں دباؤ کا شکار طلبہ کی تعداد میں 74فیصد اضافہ ہوا ۔ایڈنبرا یونیورسٹی میں بھی ذہنی امراض میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
گلاسگو شیل ڈونین یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس افئیر کے ڈائریکٹرجے کی مین کے مطابق یہ مسئلہ یک جہتی نہیں ،بلکہ اس کے کئی پیچیدہ پہلو ہیں ۔ہمارے ہاں طلبہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر24گھنٹے تنقید،گالی ، دھمکیاں اور دھونس چلتی ہے،جس کے باعث سوشل میڈیا بھیانک میدا ن جنگ کا منظر پیش کررہا ہے ۔وہاں 24گھنٹے پائی جانے والی تلخی اور کشیدگی نے نوجوانوں کا ذہن مفلوج کردیا ہے ۔طبی ماہرین نے ایک جگہ جم کر بیٹھنے (Sitting)کو بھی نئی ’’سگریٹ نوشی ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ بیٹھے رہنے کے بھی کم و بیش وہی منفی اثرات ہیں جو ہم سگریٹ نوشی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد بھی سگریٹ نوشی سے مرنے والوں کے برابر ہی ہے یعنی سوشل میڈیا اور سگریٹ نوشی کو ایک جیسا قاتل کہنے میں کوئی حرج نہیں۔انسانی صحت تو ایک طرف، یہ دونوں جانیں لینے میں بھی کم نہیں۔ امریکی جریدہ ’’فوربز ‘‘ میں شائع ہونے والے ایلس جی والٹن کے مضمون کا موضوع بھی یہی ہے یعنی ’’سوشل میڈیا چھ طریقوں سے ہماری ذہنی صحت کو متاثر کر رہاہے‘ ‘۔وہ لکھتے ہیں
’’ہمیں جب ایک دو منٹ بھی فارغ ملتے ہیں تو ہم نیوز فیڈ یا ٹوئٹر وغیرہ کھول لیتے ہیں، بظاہر یہ عام سی بات لگتی ہے مگر ہم نہیں جانتے کہ یہ حرکت ہمارے ذہن اور صحت پر کتنی بھاری پڑتی ہے۔امریکہ کی ’’اکادمی برائے زچگان ‘‘ نے سوشل میڈیا کے خوفناک اثرات سے خبردار کیا ہے۔انہوں نے ٹین ایجرز اور کم عمر بچوں میں آپس میں محاذ آرائی اور بحث مباحثے کو ذہنی نشو و و نما کے لئے نہایت نقصان دہ قرار دیا ہے۔اسی لئے مغرب میں ’’FaceBook Depression‘‘ اور ’’Cyber Bullying ‘‘ کے نام سے دو نئے امراض متعارف ہوئے ہیں۔
انہوں نے اسے ڈس آرڈر یعنی دماغی خلل سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی مدد سے نوجوان عملی زندگی سے فرار حاصل کرتا ہے،وہ معاشرے سے کٹ جاتا ہے،ذہن ہر وقت کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا رہتا ہے۔ اس سے قوت برداشت میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا کا مقصد آپس کے تعلقات کو مضبوط کرنا اور ایک دوسرے کو مسلسل رابطے میں رہنا ہے۔ایسی سائٹس 1996ء میں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں اور اب ان کی تعداد حشرات الآرض کی طرح بڑھتی جارہی ہے بلکہ شائد ان سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
دوسری طرف ہر سائٹ پر ہر کسی کا ذہنی میعار اور نکتہ نظر مختلف ہے ۔ان سب پر لازم نہیں کہ وہ دوسرے کا نکتہ نظر تسلیم کریں یا اس کا جواب دیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ’’راستہ ‘‘ ہی بدل لیں یعنی کوئی دوسری سائٹ کھول لیں۔ورنہ وہاں ہونے والے ذہنی تصادم کا نتیجہ پریشانی اور خلفشار کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔اس سے ذہنی خلفشار بڑھ رہاہے۔ اسی لئے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ معلومات ضرور حاصل کیجئے مگر اس حد تک نہیں کہ آپ سوشل میڈیا کے غلام بن جائیں۔ ٭٭٭