قطرہ مانگے جو کوئی تو اُسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے، اپنی تمنا دے دے
وہ جو آسوُدگی چاہیں انہیں آسوُدہ کر
بے قراری کی لطافت مجھے تنہا دے دے
میں اس اعزاز کے لائق تو نہیں ہوں لیکن
مجھ کو ہمسائیگی گنبد خضری دے دے
غم تو اِس دور کی تقدیر میں لکھے ہیں مگر
مُجھ کو ہر غم سے نمٹ لینے کا یارا دے دے
تب سمیٹوں میں ترے ابرِ کرم کے موتی
میرے دامن کو جو تو وسعتِ صحرا دے دے
تیری رحمت کا یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے
قدم اُٹھیں تو زمانہ مجھے رَستا دے دے
جب بھی تھک جائے محبّت کی مسافت میں ندیم
تب تِرا حُسن بڑھے اور سنبھالا دے دے