چاند تاروں سے جو منزل کا پتہ دیتا ہے
وہ ہی خورشید کی کرنوں سے ضیا دیتا ہے
حال دل اس کے سوا کس کو سناؤں اپنا
جو مرے عیب زمانے سے چھپا دیتا ہے
میں اسے چھوڑ کے بندوں سے بھلا کیوں مانگوں
وہ مجھے میری طلب سے بھی سوا دیتا ہے
زلزلے اس کی حکومت کا بیاں ہیں لو گو
ایک جھٹکے سے جو دنیا کو ہلا دیتا
پیٹ سے مچھلی کے یونس کو نکالا جس نے
وہ ہی یعقوب کو یوسف سے ملا دیتا ہے
ذکر اولاد پیمبر میں فنا کر کے مجھے
وہ مجھے عشق محمد کی جزا دیتا ہے
اس کی قدرت کا بھلا کیسے ہو اندازہ ہمیں
جو کہ صحرا میں بھی باغات کھلا دیتا ہے
قرض مفلس کا ادا غیب سے کرتا ہے وہی
وہ ہی محتاج کو سلطان بنا دیتا ہے
لا مکاں ہے وہ نہیں رہنے کی حاجت اس کو
قلب مومن میں مگر خود کو سما دیتا ہے
قید سے وہ ہی اسیروں کو رہا کرتا ہے
وہ ہی بے آس مریضوں کو شفا دیتا ہے
چاہے تو چچا پیمبر کا بھی محروم رہے
چاہے تو غیر کو زیشان بنا دیتا ہے
میں اسی سے ہوں ہدایت کا طلبگار بلال
جو خطا کار کو ابدال بنا دیتا ہے
----
بلال رشید