مسلم (جون1912ء)


ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے
سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
نغمۂ امید تیری بربط دل میں نہیں
ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے Ù…Ø+مل میں نہیں
گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا
اور دل ہنگامۂ Ø+اضر سے بے پروا ترا
قصۂ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں
اہل Ù…Ø+فل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں
اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ
ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ
زندہ پھر وہ Ù…Ø+فل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دو شینہ ہوسکتی نہیں
ہم نشیں! مسلم ہوں میں، توØ+ید کا Ø+امل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
نبض موجودات میں پیدا Ø+رارت اس سے ہے
اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے
Ø+Ù‚ Ù†Û’ عالم اس صداقت Ú©Û’ لیے پیدا کیا
اور مجھے اس Ú©ÛŒ Ø+فاظت Ú©Û’ لیے پیدا کیا
دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا
Ø+Ù‚ تو یہ ہے Ø+افظ ناموس ہستی میں ہوا
میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے
میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے
قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
جس Ú©ÛŒ تابانی سے افسون سØ+ر شرمندہ ہے
آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار Ø+یات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار Ø+یات
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتØ+ کامل Ú©ÛŒ خبر دیتا ہے جوش کارزار
ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں
اہل Ù…Ø+فل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں