ایک امت کے گزرنے کے بعد کا وقت
وہ عہد جو دھندلا گیا
اک چاند جو گہنا گیا
وہ ساتھ اپنے لے گیا
اپنی ردائے دل کشا
رستے دکھاتی روشنی
گہری کشش موجود کی
ہونے کی مستی سے بھرے
رشتے گماں و لمس کے
اب اصل تو باقی نہیں
اس کا یقیں باقی نہیں
ایک نقل جیسے اس کی ہے
بے روح جیسی کوئی شے
یہ درمیاں کے سلسلے
الجھے ہوئے حیرت کدے
ٹوٹی ہوئی رنگینیاں
بگڑی ہوئی رعنائیاں
آنے سے پہلے خواب کے
کھلنے سے پہلے باب کے
بڑھتی ہوئی بے چینیاں
بڑھتی ہوئی تنہائیاں
٭٭٭