یہ خوابِ سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی
چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی
کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے میں +تھی پلٹ آئی
تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا
صبا بھی چند قدم ہی گئی، پلٹ آئی
خبر نہیں وہ مرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ رہگزر تو مرے ساتھ ہی پلٹ آئی
کہاں سے لاؤ گے ناصر وہ چاند سی صورت
گر اتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی