افریشیائی ادیبوں کے نام
جہانِ لوح و قلم کے مسافرانِ جلیل
ہم اہلِ دشتِ پشاور سلام کہتے ہیں
دلوں کا قرب کہیں فاصلوں سے مٹتا ہے
یہ حرفِ شوق بصد احترام کہتے ہیں
ہزار لفظ و بیان و زباں کا فرق سہی
مگر حدیثِ وفا ہم تمام کہتے ہیں
وہ ماؤؔ ہو کہ لوممباؔ ،سکارنوؔ ہو کہ فیضؔ
سبھی کے لوح و قلم عظمتِ بشر کے نقیب
سب ایک درد کے رشتے میں منسلک بسمل
سبھی ہیں دور نظر سے سبھی دلوں کے قریب
جکارتہ و سراندیپ سے پشاور تک
سبھی کا ایک ہی نعرہ سبھی کی ایک صلیب
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ زندگی اپنی
فضائے دہر میں کیوں موت سے بھی سستی ہے
ہم اہلِ شرق ہیں سورج تراشنے والے
مگر ہماری زمیں نور کو ترستی ہے
یہ کیا کہ جو بھی گھٹا دشت سے ہمارے اٹھے
وہ دور پار سمندر پہ جا برستی ہے
فلک سے اب نہیں اترے گا کوئی پیغمبر
جہانِ آدم و حوا سنوارنے کے لیے
یہاں محمدﷺ و گوتم ، مسیح و کنفیوشس
جلا چکے ہیں بہت آگہی فروز دئیے
مگر ہے آج بھی اپنا نصیب تاریکی
مگر ہے آج بھی مشرق شبِ دراز لیے
ہمیں کو توڑنے ہوں گے صنم قدامت کے
ہمیں کو اب نیا انسان ڈھالنا ہو گا
ہمیں کو اپنے قلم کی ستارہ سازی سے
ہر ایک خطۂ تیرہ اُجالنا ہو گا
ہمیں کو امن کے گیتوں سے میٹھے بولوں سے
مہیب جنگ کی آندھی کو ٹالنا ہو گا
٭٭٭