وقت مقتل سے مری لاش اٹھا لایا تھا
لوگو میں اپنی گواہی میں خدا لایا تھا

اب یہ موسم مری پہچان طلب کرتے ہیں
میں جب آیا تھا یہاں، تازہ ہوا لایا تھا

لے اڑی بادِ کم آثار سرِ دشت، کہیں
میں تو صØ+را سے ترے گھر کا پتہ لایا تھا

میرے ہاتھوں میں بھی زیتون کی شاخیں تھیں کبھی
میں بھی ہونٹوں پہ کبھی Ø+رفِ دعا لایا تھا

جنگ Ú©Û’ آخری لمØ+ÙˆÚº میں عجب بات ہوئی
شاہ لڑتے ہوئے پیادے کو بچا لایا تھا

لذتِ در بدَری بھول چکا ہوں اب تو
خالی ہاتھوں میں کبھی ارض و سما لایا تھا

وہ بھی دریوزہ گرِ شہرِ تمنا تھا سلیمؔ
میں بھی اک کاسۂ بے نام اٹھا لایا تھا
Ù+Ù+Ù+