واہمہ ہے
واہمہ ہے یہ سمندر شام ساحل کی طرح
دس برس پہلے کی چاہت کی حقیقت کی طرح
باغ میں اس کی رفاقت آسمانِ شب تلے
گرمیوں میں ہاتھ اُس کا روشنی کا جال سا
دو اندھیروں میں گھرے اک دائمی سے حال سا
دو زمانوں کے اثر میں رنگِ ماہ و سال سا
واہمہ ہے یہ سمندر اُس محبت کی طرح
٭٭٭