تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن
وہ تو بس ایک موج تھی آئی ادھر اُدھر گئی
آنکھوں میں ہے مگر ابھی رات کے خواب کی تھکن
پھر وہی دشتِ بے اماں پھر وہی رنجِ+ رائیگاں
دل کو جگا کے سو گئی تیرے خیال کی کرن
آیا گیا نہ میں کہیں+ صبح سے شام ہو گئی
جلنے لگے ہیں+ ہاتھ کیوں ٹوٹ رہا ہے کیوں +بدن
کس سے کہوں کوئی نہیں سو گئے شہر کے مکیں
کب سے پڑی ہے راہ میں میّتِ شہرِ بے کفن
میکدہ بجھ گیا تو کیا رات ہے میری ہمنوا
سایہ ہے میرا ہم سبو چاند ہے میرا ہم سخن
دل ہے مرا لہو لہو تاب نہ لاسکے گا تو
اے مرے تازہ ہمنشیں تو مرا ہم سبو نہ بن