بجھنے لگ جائیں تو پھر شمعیں جلا دی جائیں
میری آنکھیں مرے دشمن کو لگا دی جائیں
بے Ûنر لوگ Ú©Ûاں Ø+ر٠کی سچائی Ú©Ûاں
اب کتابیں کسی دریا میں بÛا دی جائیں
ان Ú©ÛŒ Ù¾Ûچان کا دکھ جاں سے گزرتا ÛÛ’
ÛŒÛ Ø´Ø¨ÛŒÛیں Ø³Ø±Ù Ø¢Ø¦ÛŒÙ†Û Ú¯Ù†ÙˆØ§ دی جائیں
اب بچھڑنے کا Ø³Ù„ÛŒÙ‚Û ÛÛ’ Ù†Û Ù…Ù„Ù†Û’ کا Ûنر
عشق میں تÛمتیں آئیں تو بھÙلا دی جائیں
یا تو خورشید چمکتا رÛÛ’ پیشانی میں
یا لکیریں مرے ماتھے کی مٹا دی جائیں
کتنی بھولی Ûوئی باتیں Ûمیں آج اÙس Ú©ÛŒ سلیمؔ
یاد آئی Ûیں تو اب اس Ú©Ùˆ بتا دی جائیں
Ù+Ù+Ù+