ایک انوکھی کہانی
اربوں کھربوں تاروں اور سیاروں کی اس
بھیڑ میں رُک کر دیکھ سکیں تو
اپنی زمیں کی ساری وسعت اور پھیلاؤ
دُنیا بھرکے صحراؤں میں پھیلی ریت کا اک ذرہ یا
ممکن ہے اس سے بھی کم ہو
لیکن پھر بھی
اس موہوم سے ذرے اندر
کیسی کیسی دُنیائیں اور کیا کیا منظر بستے ہیں
دیکھنے والی آنکھیں روز بدل جاتی ہیں، منظر بجھتے رہتے ہیں
لیکن ہر منظر کے اندر اپنا ایک تماشا ہے
دیکھنے والی سب آنکھوں کی اپنی اپنی دُنیا ہے
سورج کی شرطوں پہ چلتا یہ جو ہمارا
جلتا بجھتا سیرا ہے
اب تک کے معلوم جہانوں کی واحد یہ آبادی ہے
آدم کا اور اُس کی ساری نسلوں کا گہوارا ہے
ہست و بود کے جتنے منظر جتنے رنگ ہیں
ان سب کا ور تارا ہے
کیسا عجب تماشا ہے یہ
ایک ہی آدم کی اولادیں ایک ہی دھرتی پر رہتی ہیں
لیکن پھر بھی
اک دوجے کے بیچ میں کتنی دیواریں ہیں
رنگوں نسلوں ملکوں کی
دولت اور عقیدوں کی
جن سے دُنیا، ہم سب کی یہ ایک ہی دُنیا
ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے
کوئی کسی کا میت نہ ہو گا لمحوں کا فرما ن یہی ہے
ہر گلشن کا رنگ جُدا موسم کا اعلان یہی ہے
ہم جس خلقت کا حصہ ہیں اُس کی اب پہچان یہی ہے
بے چہرہ ، چہرے ہیں سب کے ، ہونٹ سوالی رہتے ہیں
بھوک کی بولی بولتی آنکھیں
پیٹ کے اندر ہوتی ہیں جو اک خالی رہتے ہیں
آئی ۔ایم ۔ایف اور اس طرح کے کئی ادارے
اُس کے رزق کا لقمہ لقمہ گنتے ہیں اور اُس کو اُسکے
اپنے ہی پیڑوں کا پھل بھیک کی صورت میں ملتا ہے
یوں لگتا ہے جیسے سب اخلاقی قدریں سارے رشتے
صرف کتابوں میں ہوتے ہیں
جیسے بس یہ زور آور ہیں اصل حقیقت
باقی سارے قصے ہیں
ایک شکستہ آئینے کے ٹوٹے بکھرے حصے ہیں
ٹوٹے بکھرے ان حصوں کو جوڑے کون
چاروں اور سے گھیرا کرتی دیواروں کو توڑے کون
یوں لگتا ہے
جیسے یہ اک خواب ہے جس کی
کوئی بھی تعبیر نہیں
ٹکڑے ہو کر پھر سے ملنا
دھرتی کی تقدیر نہیں
شاید یہ سب ٹھیک ہو لیکن
دل کہتا ہے
اس سارے سنسار سے اوپر
اور کوئی بھی تو رہتا ہے
جس کے حکم سے وقت کا دھارا
رُکتا بھی ہے اور بہتا ہے
یہ جو اندر سے اُٹھتی ہے ایک صدا انجانی سُنئے
آئیے ایک کہانی سُنیے
***