قرب سلطان
تمیز حاکم و محکوم مٹ نہیں سکتی
مجال کیا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش
جہاں میں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمال
رضاۓ خواجہ طلب کن قباۓ رنگیں پوش
مگر غرض جو حصول رضائے حاکم ہو
خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش
پرانے طرز عمل میں ہزار مشکل ہے
نئے اصول سے خالی ہے فکر کی آغوش
مزا تو یہ ہے کہ یوں زیر آسماں رہیے
''ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش''
یہی اصول ہے سرمایۂ سکون حیات
''گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش''
مگر خروش پہ مائل ہے تو ، تو بسم اللہ
''بگیر بادۂ صافی، ببانگ چنگ بنوش''
شریک بزم امیر و وزیر و سلطاں ہو
لڑا کے توڑ دے سنگ ہوس سے شیشۂ ہوش
پیام مرشد شیراز بھی مگر سن لے
کہ ہے یہ سر نہاں خانۂ ضمیر سروش
''محل نور تجلی ست راۓ انور شاہ
چو قرب او طلبی در صفاۓ نیت کوش''