سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
اب تو آجا کہ رات بھیگ چلی
کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا
دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی
کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں+ دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی
تو بتا کیا تجھے ثواب ملا
خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی
مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال
سامنے ہے ترے کتاب کھلی
میرے دل سے نہ جا خدا کے لیے
ایسی بستی نہ پھر بسے کبھی
میں اسی غم میں گھلتا جاتا ہوں
کیا مجھے چھوڑ جاۓ گا تو بھی
ایسی جلدی بھی کیا ، چلے جانا
مجھے اک بات پوچھنی ہے ابھی
آبھی جامیرے دل کے صدر نشیں
کب سے خالی پڑی ہے یہ کرسی
میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی