خاتون جنت ، سیدہ فاطمہ الزہراءؓ
ڈاکٹر ساجد خاکوانی۔اسلام آباد
اس نیلے آسمان کے نیچے اور زمین کے اس سینے پر محسن انسانیت ﷺکو سب سے عزیزترین اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ آپﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاہی تھیں۔آپ ﷺنے اپنی اس جگرگوشہ کوجنت میں عورتوں کی سردار قرار دیا۔ایک روایت کے مطابق آپﷺ حضرت فاطمۃ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہاکی خوشبو سونگھ کرفرماتے کہ ان میں سے مجھے بہشت کی خوشبوآتی ہے کیونکہ یہ اُس میوۂ جنت سے پیداہوئی ہیں جو شب معراج کے موقع پر جبرائیل(علیہ السلام) نے مجھے کھلایاتھا۔
ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اﷲتعالیٰ عنہاکے بطن سے آپﷺ کی کل4 شہزادیاں تھیں:حضرت زینب،حضرت رقیہ ،حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمۃ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہن۔ان میں سے حضرت فاطمہ سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ لاڈلی تھیں۔بڑی تینوں آپﷺ کی عمرعزیزمیں ہی انتقال فرماگئی تھیں،صرف حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہاوصال مبارک کے وقت موجود تھیں۔
ایک روز آپﷺ نے سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کے کان میں کچھ کہاتووہ رونے لگیں ۔بیٹی کوروتادیکھ کرآپﷺ نے ایک بارپھر ان کے کان میں کچھ کہاتووہ مسکرانے لگ گئیں۔بعد کے دنوں میں حضرت فاطمہؓ نے وضاحت کی کہ پہلی بار آپﷺ نے مجھے اپنے وصال کی خبردی تو میں رونے لگی،بعد میں فرمایاکہ میرے خاندان میں سے سب سے پہلے آپ ہی مجھ سے آن ملوگی تو میں مسکرانے لگی۔یہ فرط محبت کاایک اچھوتاانداز تھا۔
حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہاکی پیدائش مبارکہ بعثت نبوی ﷺکے پانچویں سال ہوئی۔یہ صبح صادق کاوقت تھا،جمعۃ المبارک کادن اور21ربیع الثانی کی متبرک تاریخ تھی۔آپ ؓخاص قریش،آل بنی ہاشم،بنی عبدالمطلب اور اہل بیت نبویﷺمیں سے تھیں۔امت مسلمہ کے ہاں آپ ؓکی عقیدت ومودت کسی بھی اور خاتون سے کہیں زیادہ ہے۔آپؓ کی پہچان صرف آپؓ کی ذات مبارکہ یاآپؓ کاحسب و نسب ہی نہیں بلکہ آپؓ کی آل والاد اور آپؓ کی نسل بھی اسلام اور تاریخ اسلام کے شاندار ابواب اور عالم انسانیت میں قابل فخروقابل ستائش ہے۔مسلمان معاشروں میںخواتینِ اسلام کے ہاں یہ نام ’’فاطمہ‘‘سب سے زیادہ کثرت کے ساتھ رکھاجاتاہے اورباعث برکت سمجھاجاتاہے۔
آپ ؓکی فضیلت عالیہ کے باعث آپؓ سے منسوب القابات کی بہتات ہے۔آپ ؓکے مشہور القابات ’’زہرا‘‘اور’’سیدۃ النساء العالمین‘‘ہیں اس لیے آپﷺ نے آپؓ کودنیاوجنت کی خواتین کی سردارقراردیاتھا۔آپؓ کی مشہور کنیت ’’ام الائمہ‘‘ہے ،اس لیے کہ اثناعشریہ کے کل ائمہ معصومین آپؓ کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔آپ ؓ کے 2 فرزندان حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہماکے باعث آپؓ کو’’ام السبطین‘‘اور’’ام الحسنین‘‘بھی کہاجاتاہے۔آپؓ کو خاتون جنت،الطاہرہ،الزکیہ،المرضیہ،الس یدہ وغیرہ سے بھی یاد کیاجاتاہے۔بتول بھی آپؓ کامشہور لقب مبارک ہے۔
پیدائش کے بعد آپﷺنے بذات خود سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓکی تربیت کی۔ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہابھی ظاہر ہے کہ اس تربیت میں آپﷺکے ساتھ ساتھ تھیں۔بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے وصال کے وقت آپؓ بہت کم سن تھیں چنانچہ قریش کی متعدد خواتین نے حضرت فاطمہؓ کواپنی زیرتربیت لیے رکھا۔ان میںسیدہ فاطمہ بنت اسدؓجو ابوطالب کی زوجہ محترمہ تھیں ،ام الفضلؓ جو حضرت عباس بن عبدالمطلب کی زوجہ محترمہ تھیں،حضرت ام ہانیؓ جو آپﷺ کی پھوپھی تھیں،سیدہ اسماء بنت عمیسؓ جو حضرت جعفرطیارکی زوجہ محترمہ تھیں اور حضرت صفیہ بنت امیرحمزہ ؓبن عبدالمطلب کانام خاص طور پر ملتاہے۔یہ خواتین اہل بیت کی سرخیل خواتین ہیں۔ان سورج چاندستاروں کے زیرتربیت رہنے والی خاتون کو واقعی حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہاہی ہونا زیب دیتاہے۔بی بی فاطمہؓ کی پیدائش اور تربیت کازمانہ مکی زندگی کا دورابتلاو آزمائش تھاچنانچہ آپؓ نے ابتدائے اسلام کے بہت ہی کٹھن دورکابنظرغائرمشاہدہ کیا۔ابولہب کامکان اوربی بی خدیجہ ؓکے گھرکی ایک ہی دیوار ہواکرتی تھی۔صبح جب رسول اللہ ﷺگھرسے نکلنے کے لیے دراقدس کھولتے توام جمیل زوجہ ابولہب نے کانٹوں کا ڈھیر لگارکھاہوتا،بی بی صاحبہ ؓآگے بڑھ کر اپنی ننھی منی انگلیوں سے پہلے راستہ صاف کرتیں پھر پدربزرگوارروانہ ہوتے اور اس کوشش میں انگلیوں کے مقدس و محترم و معصوم پور کانٹوں کے باعث خون سے رنگین ہو چکے ہوتے تھے۔اہل مکہ جب کبھی نبی علیہ السلام پر اوجھڑی پھینک کر جسم اطہرکوآلودہ کردیتے تو بی بی فاطمہ ؓ رسول اللہ ﷺ کوپانی سے غسل دیتی تھیں اور ساتھ کے ساتھ اشکوں کی برسات بھی جاری رہتی جس پر سب سے بڑامشفق باپ سب سے زیادہ اطاعت کیش بیٹی کو تسلی ارشاد فرماتے تھے اور اﷲ تعالیٰ کی مدد پر یقین کی تلقین کرتے۔شعب ابی طالب کے کٹھن ترین مرحلے میں آپؓ اپنی کم سنی کے ساتھ شریکِ آزمائش تھیں۔
ہجرت کاواقعہ تاریخ اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔مردوں کے بعد خواتین اسلام نے بھی ہجرت کی ،چنانچہ حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہانے حضرت فاطمہؓ بنت اسد،ام المومنین حضرت سودہ ؓاورام المومنین حضرت عائشہؓ کے ساتھ ایک قافلے میں ہجرت کی۔مدینہ طیبہ آمد کے بعد حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہاسیدہ فاطمہ بنت اسدؓ کے زیرتربیت رہیں،پھر جب حضرت ام سلمی کو ام المومنین کا مرتبہ ملاتو بی بی صاحبہ ؓکو آپﷺ نے ان کے زیرتربیت دیدیا۔ام المومنین حضرت ام سلمی ؓ فرماتی ہیں میں نے بی بی فاطمہ ؓکوادب سکھاناچاہاتواللہ کی قسم وہ پہلے سے ہی مودب تھیں۔خاتون جنتؓ سے کئی حضرات نے شادی کی خواہش کااظہارکیا،ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر ؓاورحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓبھی شامل تھے ،لیکن ہربار وحی کے انتظارکاجواب ملا۔حضرت علی کرم اﷲ وجھہ بذات خودبھی خاندانی قربت کے باعث بی بی فاطمہؓ سے نکاح کے خواہاں تھے لیکن شیرخداہونے کے باوجود عقیدت و محبت کے باعث رشتہ مانگنے کی جرأت نہ ہوتی تھی،چنانچہ انصارکے سردارحضرت سعد بن معاذرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت علیؓ کی درخواست دربارنبوت تک پہنچائی اور بی بی فاطمہؓ کے رشتے کی درخواست کی چنانچہ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بلاکر فرمایا:مجھے اﷲ تعالیٰ نے حکم دیاہے کہ فاطمہ بنت محمدﷺکی شادی آپؓسے کروں۔
یکم ذوالحجہ2ہجری کو 500درہم حق مہر کے عوض مسجدنبویؐ میں مسلمانوں کی بھری مجلس کے اندریہ مبارک نکاح عمل میں آیا۔حضرت علی کرم اﷲ وجھہ نے شادی کے اخراجات کے لیے اپنی زرہ فروخت کردی تھی جس کے عوض 500درہم ملے اور یہ کل رقم آپ ؓ نے محسن انسانیت ﷺ کے سپرد کر دی جو مہر قرارپایا۔جہیزکے سامان کے لیے آپﷺ نے حضرت مقدادؓبن اسود،حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت بلال ؓکو رقم دے کربھیجا۔جہیزمیں ایک قمیض،سرڈھانپنے کاایک کپڑا،ایک سیاہ کمبل،کھجورکے پتوں سے بناایک بستر،موٹے ٹاٹ کے 2فرش،4چھوٹے تکیے،ہاتھ سے آٹاپیسنے والی ایک چکی،کپڑے دھونے کے لیے تانبے کاایک برتن،پانی کے لیے چمڑے کی ایک مشق(مشکیزہ)،لکڑی کاایک گلاس،مٹی کے2پیالے،مٹی کی ایک صراحی،زمین پربچھانے کاایک چمڑا،ایک سفیدچادراورایک لوٹاشامل تھا۔اس مختصرسے جہیزکودیکھ کر چشمگانِ نبوی ﷺآبدیدہ ہو گئیںاور برکت کے لیے دعالبوں پر پہنچ گئی۔
رخصتی کے وقت حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہا’’اشہب‘‘نامی اونٹنی پرسوارتھیںاوراسکی مہارحضرت سلمان فارسیؓ نے تھامی تھی۔رخصتی کے جلوس میں ازواج مطہراتؓ سب سے آگے آگے تھیںاوراونچی آواز سے رجزگارہی تھیں،خاص طورپر حضرت عائشہ ؓنے جو رجز گایااس میں فرمایا کہ’’حضرت فاطمہؓ کوساتھ لے کر چلو،اﷲتعالیٰ نے ان کے ذکرکوبلندکیاہے اوران کے لیے انہی کے خاندان کے ایک پاک و پاکیزہ فرد کوشوہربنایاہے‘‘۔ام المومنین حضرت ام سلمیٰ ؓ اورام المومنین حضرت حفصہؓ نے بھی اونچی اونچی آواز میں رجز گائے۔آپﷺ اس دوران خواتین سے کہتے جارہے تھے کہ رجزپڑھیں اور اﷲتعالیٰ کی تکبیربلند کریں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے اﷲتعالیٰ ناراض ہو۔بنی ہاشم کے نوجوان ننگی تلواریں لیے ہمرکاب تھے۔ مسجد نبویﷺکے دامن میں چلنے کے بعد بی بی فاطمہ کوحضرت علی کے گھرمیں اتاراگیا۔آپﷺ نے پانی منگوایااور اس پر دم کر کے بی بی فاطمہؓاور حضرت علی کے سربازوؤںاورسینے پر چھڑکااوردعافرمائی کہ اے بارالٰہ! میں ان کی نسل کو شیطان مردودسے تیری پناہ میں دیتاہوں۔حضرت علی ؓکے حجرے اورحجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے درمیان ایک اور صحابی رسولﷺ کا حجرہ تھا۔شادی کے بعد آپﷺ نے اس مسلمان سے کہاتواس نے حضرت علی سے اپناحجر ہ تبدیل کرلیا،گویا لخت جگرسے اتنی قلیل مسافت بھی مزاج نبویﷺپر گراں تھی۔آپﷺ جب فجرکی نماز کے لیے نکلتے تو حضرت علی کے حجرے کادروازہ بجاتے اور فرماتے کہ اے اہل بیت نماز کے لیے چلو۔شادی کے بعد خواتین نے حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہاکوطعنے دیئے کہ تیراشوہر غریب ہے ۔آپﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ!میں نے تیری شادی ایک ایسے فرد سے کی ہے جواسلام میں سب سے اول ہے،علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے،پھرآپﷺ نے فرمایا:اے فاطمہ! کیاتمہیں نہیں معلوم کہ دنیاوآخرت میں علیؓ میرابھائی ہے۔اس پر حضرت فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہامسکرانے لگیں اور مطمئن ہوگئیں۔
سیدہ فاطمہ ؓکے 2بیٹے حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اورحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے جبکہ 2بیٹیاں حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہااورحضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہاتھیں۔شادی کے ابتدائی ایام میں حالات بہت زیادہ تنگ دستی کا شکاررہے تھے،لیکن بی بی فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہا نے کبھی حالات کی شکایت سے اپنے شوہر کو پریشان نہیں کیا،بلکہ سوت کات کر یا رسی کے گولے بناکر حضرت علی کرم اﷲ وجھہ کو دیاکرتی تھیں تاکہ شوہر کے ساتھ مالی معاونت ہوسکے۔غربت اور سادگی کے باوجود حسنِ معاشرت کے باعث آپؓ کے شوہر کو کبھی آپؓ سے شکایت پیدانہیں ہوئی تھی۔ سیدہ ؓاپنے شوہر سے بہت پیاربھری اور محبت سے لبریزگفتگوفرماتی تھیں۔لوگوں کے سامنے کنیت’’ ابولحسن‘‘ کہہ کر بڑے ادب و احترام سے پکارتی تھیں۔جب شوہر کے گھرآنے کاوقت ہوتاتوخود کو اچھی طرح تیارکرتی تھیںاورشوہر کے لیے کشش کاباعث رہتی تھیں۔دربارنبویﷺ سے ’’فضہ‘‘نامی کنیز میسرآئیں تو گھرکاسارابوجھ ان پر نہیں ڈالاتھا،آدھاکام خود کرتیں اور آدھاکام ان سے لیتی تھیں۔بعض سیرت نگاروں نے اس کی عملی صورت یہ بتائی ہے کہ ایک دن بی بی فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہا خانگی امورسرانجام دیتی تھیں اور ’’فضہ‘‘آرام کرتی تھی جبکہ دوسرے دن پھر کنیزکی ذمہ داری تھی کہ وہ جملہ خانگی امور نپٹادے۔
سیدہ فاطمہ الزہرارضی اﷲتعالیٰ عنہا نے مکہ مکرمہ کا دورصعوببت سمیت کئی جنگیں دیکھیں،لیکن کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔جنگ احد میں رسول اﷲﷺ زخمی ہوگئے اور حضرت علی کرم اﷲ وجھہ کو 16 گہرے زخم آئے توبی بی صاحبہؓ عین میدان جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری،دوا دار و اورمرہم پٹی میں مصروفِ کاررہیں اور شکوہ و شکایت یا خوف وگھبراہٹ کاشائبہ تک چہرہ مبارک پر ہویدانہیں ہوا۔
مسیحی پادریوں کا ایک وفد جب خدمت اقدس ﷺمیں پیش ہوا اور گفت و شنیدبے نتیجہ رہی تو اﷲ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایاکہ ’’
فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالُوْا نَدْعُ أَبْنَآئَ نَا وَ أَبْنَآء کُمْ وَ نِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَ أنْفْسَنَا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ۔
’’ آپ(ﷺ) کے پاس یہ علم آجانے کے بعداب جوکوئی اس معاملے میں آپ(ﷺ)سے جھگڑاکرے تواس سے کہیں کہ :آؤ!ہم اورتم خود بھی آجائیں اوراپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیںاور(اللہ تعالیٰ سے) دعاکریں کہ جوجھوٹاہو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘( آل عمران61)۔
اس حکم ربانی کے بعد آپﷺ نے مسیحیوں کو دعوت مباہلہ دی اور اگلے دن آپ ﷺ حضرات علی ؓ و فاطمہؓوحسن ؓ حسین رضی اﷲ تعالی عنہم کی معیت میں باہر نکل آئے ،لیکن مسیحی اس موقع پر مباہلہ کے لیے سامنے نہ آئے اور ان کے سردارنے کہاکہ میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں کہ اگر یہ بددعادے دیں توروئے زمین میں ایک بھی مسیحی باقی نہ بچے۔اس واقعے سے بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہااور ان کے گھرانے کی اہمیت مسلّم ہو جاتی ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں آپﷺنے فرمایا :
’’ایک فرشتہ جو زمین پر کبھی نہ اتراتھا ،صرف مجھے یہ بتانے کے لیے اتراکہ(سیدہ) فاطمہ(رضی اللہ عہنا)جنتی خواتین کی سرداراورحسنین کریمین(رضی اللہ عنہم)جنتی نوجوانوں کے سردارہیں۔‘‘
ایک اورموقع پرآپﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ(رضی اللہ عہنا) میری جان کاحصہ ہے، پس جس نے اسے ناراض کیااُس نے مجھے ناراض کیا۔
آپﷺ کامعمول مبارک تھاکہ سفرپرجانے کے لیے سب سے آخرمیں حضرت فاطمہؓ سے ملتے تھے اور سفرسے واپس آکرسب سے پہلے بھی حضرت فاطمہؓ سے ملتے تھے۔ایک موقع پر جب بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہانے تھکاوٹ کی شکایت کی توآپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز کے بعد 33,33 مرتبہ سبحان اﷲ،الحمد للہ اور اﷲ اکبرپڑھ لیاکریں تو امت میں یہ اذکار’’تسبیحِ فاطمہ‘‘کے نام سے معروف ہیں ۔
ً وصال نبویﷺ کے کم و بش6 ماہ بعد3جمادی الثانی 11ہجری میں سیدہ فاطمہ ؓ کی رحلت ہوئی اور بمطابق وصیت رات کی تاریکی میں آپؓ کاجنازہ پڑھاگیااورجنت البقیع میں آپؓ اپنی مرقد انورمیں محو خواب ہیں۔
بی بی فاطمہؓکی شادی کے بعد کی زندگی کُل خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔غربت اور تنگ دستی نے گھرمیں ڈیرے ڈالے رکھے لیکن شکایت کاکوئی لفظ زبان پر نہ آیا۔جب بھی بیمارہوتیں تو حضرت علیؓ کچھ لانے کاپوچھتے توفرماتیں :میرے والد محترمﷺنے مجھے منع کیاہے کہ میں آپؓ سے کچھ مانگوں۔
اگرکوئی صبروقناعت کی زندہ تصویرکودیکھناچاہے توسیدہ فاطمہ ؓ کی زندگی کامطالعہ کریں۔ایک بار کچھ لونڈی غلام کہیں سے آئے تو بی بی پاکؓ پدربزرگوارﷺکے پاس تشریف لے گئیں اور اپنے ہاتھ پر پڑے ہوئے گٹے دکھاکر عرض کیا کہ آٹاپیس پیس کر ہاتھ زخمی ہوگئے ہیں ،کوئی خدمت گار عطا کر دیں تو جواب میں انکارملا کہ ابھی بدرکے یتیم باقی ہیں۔
فاقوں پر فاقے گزرجاتے تھے لیکن آل رسولﷺ کے اس گھرانے کی چوکھٹ سے کوئی سوالی خالی نہ جاتاتھا۔یہ وہ گھرا نا ہے جس پر درودپڑھے بغیرمسلمانوں کی نماز ہی مکمل نہیں ہوتی ۔ان ہستیوں سے تعلق و عقیدت ایمان کی نشانی ہے اور ان سے بغض و عداوت ،شروفساداور طاغوت کی نشانیاں ہیں۔مسلمان عورت اگردنیاوآخرت کی کامیابیاں و کامرانیاں چاہتی ہے تو دختررسولﷺسے بڑھ کراورکوئی نسوانی مثال موجود نہیں ۔