جب الاسکا بِک گیا
23256 15403107 - جب الاسکا بِک گیا
عبدالحفیظ ظفر
رقبے کے لحاظ سے الاسکا امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے لیکن ایک زمانے میں الاسکا روس کا حصہ تھا اور روس نے اسے امریکا کو فروخت کر دیا تھا۔ آخر روس نے الاسکا کو کیوں فروخت کیا اور امریکا نے اسے کیوں خریدا؟ اس کے محرکات بڑے دلچسپ ہیں۔ امریکہ نے الاسکا روس سے پہلے ہی خرید لینا تھا لیکن روس کے ساتھ اس حوالے سے 30مارچ 1867ء کو معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ اس کی وجہ امریکہ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی تھی جو 1861ء سے 1865ء تک جاری رہی۔ معاہدے کی رُو سے روس نے الاسکا امریکہ کو 72 لاکھ ڈالر، جو آج کے حساب سے تقریباً ایک ارب 31کروڑ روپے بنتے ہیں، میں فروخت کیا۔ الاسکا 1741 ء میں دریافت ہوا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس نے الاسکا کیوں فروخت کیا؟ دراصل روس کریمین جنگ ہار چکا تھا اور دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، اس لئے الاسکا میں اب اس کے مفادات نہ ہونے کے برابر تھے۔ کریمین جنگ کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ جنگ روس کے خلاف فرانس، برطانیہ اور عثمانی سلطنت کے اتحاد نے لڑی تھی۔ اس کا مقصد عیسائی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ تھا۔ فرانس نے رومن کیتھولک کے حقوق کا علم بلند کیا جبکہ روس مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کا حمایتی تھا۔ دونوں چرچ اپنے اختلافات دور کرنے پر تیار ہو گئے اور اس سلسلے میں ایک معاہدہ بھی ہو گیا، روس کے شہنشاہ نکولس اور فرانس کے شہنشاہ نپولین III نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ روس نے الٹی میٹم دیا کہ عثمانی سلطنت کے آرتھوڈوکس چرچ کے تحفظ کی ذمہ داری اسے دی جائے۔ کریمیا عثمانی سلطنت کا حصہ تھا اس لئے عثمانی سلطنت کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ روس کی بات مان لے۔ برطانیہ نے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں ایک سمجھوتہ بھی کرا دیا جسے نکولس نے قبول کر لیا۔ جب عثمانیوں نے روس کے منصوبے میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تو نکولس نے انکار کر دیا اور جنگ کی تیاری کرنے لگا۔ اب عثمانی سلطنت کے پاس روس کے خلاف اعلانِ جنگ کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس سلسلے میں عثمانیوں نے پہلے فرانس اور برطانیہ سے یہ وعدہ لیا کہ وہ روس کے خلاف جنگ میں عثمانی سلطنت کی حمایت کریں گے۔ جولائی 1853ء میں یہ جنگ بلقان میں شروع ہوئی جو 1856ء تک جاری رہی۔ مؤرخوں کے مطابق کریمین جنگ میں شکست کی وجہ سے ہی روس میں سماجی اصلاحات کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن چونکہ روس کو معاشی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا تھا اور وہ دیوالیہ ہو سکتا تھا اس لئے اس نے امریکہ کو الاسکا بیچ دیا۔ دوسری طرف امریکہ نے الاسکا اس لئے خریدا کہ امریکی رقبے میں مزید اضافہ ہو جائے۔ اُس وقت کے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ولیم سیورڈ نے جب معاہدے پر دستخط کئے تو امریکی عوام نے اسے حماقت سے تعبیر کیا۔آج الاسکا امریکہ کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ریاست قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں پٹرولیم اور سونے کی افراط ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے رقبے میں 25فی صد اضافہ بھی ہوا۔ اب اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ الاسکا کو روس سے خریدنے کا امریکی فیصلہ بالکل درست تھا۔ امریکہ کو اس فیصلے سے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ امریکہ کے وہ لوگ جو ولیم سیورڈ کے فیصلے کو احمقانہ قرار دیتے تھے، آج سیورڈ کی تعریفوں کے پل باندھے ہوئے ہیں۔ ٭…٭…٭